انتہاپسندی اور عدم برداشت
منگل 4 جنوری 2022
(جاری ہے)
اگر چہ یہ دونو ں معمول کی خبریں ہیں جو اخبارات کے اندرونی صفحات پر شائع ہوئیں۔ مذہبی شخصیات کی طرف سے ایسے اعلانات اور دوروں کی خبریں بھی اکثر و بیشتر سننے پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ اس کے باوجود یہ دونوں خبریں پڑھ کر اچھا لگا۔ ہمارا ملک اور عوام کئی برس تک دہشت گردی اور انتہاپسندی کے نتائج بھگتتے رہے ہیں۔ہمیں یاد ہے کہ چند سال پہلے تک دہشت گردی کے واقعات عام تھے۔ آئے روز بم دھماکوں اور دہشت گردی کے دیگر واقعات کی اطلاعات ملتی تھیں۔ سول اور ملٹری قیادت کے مختلف اقدامات کے زریعے رفتہ رفتہ اس صورتحال پر قابو پا لیا گیا ۔نتیجتا بلوچستان کے حالات بہتر ہوئے۔ کراچی کا امن بحال ہوا۔ اب کچھ برسوں سے ایسے واقعات کی تعداد میں نمایاں کمی آچکی ہے۔ لیکن انتہاپسندی کا زور ابھی برقرار ہے۔ عدم برداشت اور عدم تحمل کے واقعات بھی آئے روز دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ابھی چند ہفتے پہلے سیالکوٹ میں سی لنکن شہری کو جس بے دردی سے ہلاک کر دیا گیا۔ اس نے سارے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ ساری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔ پشاور میں ایک طالب علم مشعال خان کا بہیمانہ قتل بھی ایسی ہی ایک مثال ہے، جو ساری دنیا میں ہماری بدنامی کا باعث بنا تھا۔ چند دن پہلے کی خبر ہے کہ ایک نوجوان نے اپنی امریکی نیشنل سابقہ بیوی کو اس وجہ سے قتل کر دیا کہ وہ بے چاری اپنی جائیداد کی واپسی کا مطالبہ کر رہی تھی۔ یہ اور ایسی کئی قتل و غارت گری کی خبریں ہمیں پڑھنے اور سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ اس قسم کی خبریں دنیا میں ہمارا منفی تاثر ابھارتی ہیں ۔نتیجے کے طور پر ہمارے سر پرکبھی فاٹف کی تلوار لٹکتی ہے اور کبھی کسی اور پابندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
قتل و غارت گری سے ہٹ کر بھی ، عدم برداشت اور عدم تحمل کے مظاہرے کم و بیش ہر شعبہ حیات میں دکھائی دیتے ہیں۔ بد قسمتی سے یہ رجحان کم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر پارلیمنٹ کی کاروائی کا جائزہ لیں تو مخالف جماعتوں کے سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف دھواں دھار تقاریر کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لتے لیتے ہیں۔ بسا اوقات بات بڑھتے بڑھتے گالی گلوچ اور ہاتھا پائی تک جا پہنچتی ہے۔ کچھ سیاست دانوں کے سیاسی جلسوں اور تقاریر میں بھی اکثراخلاقیات سے گری زبان اور الزامات تراشی سننے کو ملتی ہے۔ ۔عوام یہ مناظر ٹی وی اسکرینوں پر براہ راست دیکھتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں۔
عدالتوں کی کاروائی کا جائزہ لیں تو وہاں بھی ایسی ہی صورتحال نظر آتی ہے۔ ابھی چند ماہ پہلے کی خبر ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں وکلاء نے عدالت پر دھاوا بول دیا۔عدالت میں توڑ پھوڑ کی اور ماردھاڑ بھی۔ یہاں تک کہ چیف جسٹس کو کورٹ روم سے اٹھ کر اپنے چیمبر میں پناہ لینا پڑی۔ عدالتی کاروائی کے دوران ، وکلاء کا ججوں پر چڑھ دوڑنا، گالی گلوچ کرنا، جج پر جوتا اچھال دینا، اور ڈرانا دھمکانا معمول کے معاملات بن چکے ہیں۔ اب تو میڈیا ایسی خبروں کو رپورٹ کرنا بھی ضروری خیال نہیں کرتا۔ خود میڈیا کا حال بھی ہمارے سامنے ہے۔ عدم تحمل اور عدم برداشت کی ترویج میں میڈیا بھی برابر کا حصہ دار ہے۔ خاص طو پر سیاسی ٹی۔وی ٹاک شوز میں برسوں سے جس طرح مہمان سیاستدانوں کو آپس میں لڑایا جاتا ہے۔ تجزئیے اور تبصروں کے نام پر جس طرح سیاستدانوں کے گریبان پھاڑے جاتے ہیں، یہ سب بھی عوام کے رویے کو منفی طور پر متاثر کرتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف خود میڈیا بھی طاقتور شخصیات اور حلقوں کی عدم برداشت کا نشانہ بنتا رہتا ہے اور دباوو کا شکار رہتاہے۔ خاص طور پرغیر جانبدار صحافی اور صحافتی ادارے اکثر مشکلات میں گھرے رہتے ہیں۔ میڈیا کی کوئی خبر، پروگرام یا تجزیہ کسی بااختیار کو گراں گزر جائے تو جوابی ردعمل کے طور پر ا س صحافی اور صحافتی ادارے کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
عوام کے بھی یہی حالات ہیں۔ سڑک پر ٹریفک کی صورتحال دیکھیں، ہم ایک دوسرے کو راستہ دینے پر تیار نہیں ہوتے۔ ڈرائیونگ کے دوران لوگ ایک دوسرے کو گالی گلوچ کرتے، ایک دوسرے سے الجھتے اکثر نظر آتے ہیں۔ دفاتر میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے اور گھریلو سطح پر بھی یہی صورتحال دکھائی دیتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ سگے بہن بھائی جائیداد اور لین دین کے معاملے میں باہمی لڑائی جھگڑے میں الجھے رہتے ہیں۔
نہایت ضروری ہے کہ ہم سب مل کر عدم برداشت اور عدم تحمل کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کی حوصلہ شکنی کریں۔ سب سے بہترین طریقہ تو یہ ہے کہ ہر ایک اپنی ذات سے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنے کی پریکٹس شروع کریں۔ سیاست دان ہوں، اساتذہ ہوں، وکلاء ہوں، صحافی یا کوئی عام آدمی، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر کوئی اپنی اپنی جگہ پر رہتے ہوئے ، اپنے رویے پر غور کرئے۔ جہاں تک علمائے کرام اور مذہبی شخصیات کا تعلق ہے تو ان پر سب سے زیادہ ذمہ داری اس وجہ سے بھی عائد ہوتی ہے کہ دین اسلام کی ترویج کرنا اور بنیﷺ کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانا ان کا فریضہ ہے۔ ہمارے سماج میں دینی شخصیات کا خصوصی احترام کیا جاتا ہے۔ عوام اور خواص ان کی باتوں پر کان دھرتے ہیں۔ لیکن یہ افسوس ناک صورتحال بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ مختلف دینی شخصیات بھی آپس میں الجھی رہتی ہیں۔ ان کی طرف سے بھی انتہا پسندی اور عدم برداشت کا تاثر عوام تک جاتا ہے۔
بہرحال یہ خبریں پڑھ کر اچھا لگا کہ مختلف مکاتب فکر اور مسالک کے علماء نصاب تعلیم سے انتہا پسندانہ مواد نکالنے پر متفق ہیں اور نیکٹا جیسے اہم قومی ادارے کے ساتھ مل کر ملک سے انتہا پسندی سے نمٹنے میں اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ ہیں۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس صورتحال سے نکلنے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔گلی محلے کی مسجد کا مولوی ہو یا ملک کی نامور یونیورسٹی کا پروفیسر، سیاستدان ہو یا صحافی، وکیل ہو ، ڈاکٹر یا کوئی عام آدمی، تحمل اور برداشت کی ترویج میں ہم سب اپنا اپنا حصہ ڈالیں گے تب ہی سماج میں تبدیلی آئے گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر لبنی ظہیر کے کالمز
-
میسور میں محصور سمیرا۔۔!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
چیئرمین ایچ۔ای۔سی ، جامعہ پنجاب میں
جمعرات 10 فروری 2022
-
خوش آمدید جسٹس عائشہ ملک!
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
انتہاپسندی اور عدم برداشت
منگل 4 جنوری 2022
-
پنجاب یونیورسٹی کانووکیشن : ایک پر وقار تقریب
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
جعل سازی اور نقالی کا نام تحقیق!!
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
تعلیم کا المیہ اور قومی بے حسی
بدھ 8 دسمبر 2021
ڈاکٹر لبنی ظہیر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.