علامہ اقبال کے معاشی تصورات

منگل 14 دسمبر 2021

Dr Syed Mehboob

ڈاکٹر سید محبوب

علامہ اقبال برِ صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کیلئے عطیہ خداوندی  تھے۔ علامہ اقبال نے اپنے انقلابی کلام سے برِ صغیر پاک و ہند کے طول و عرض میں وسیع سیاسی  اور مذہبی بیداری پیدا کی، مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی سے روشناس کرایا، اُنہیں خواب ِغفلت سے  جگایا، ان میں احساسِ ذمہ داری  پید اکیا، انکے دلوں کو حضورِ اکرم ﷺ  کے عشق  سے منور کیا، فرقہ ورانہ اور لسانیت کے تنگ دائروں سے نکال کر انکی سوچ کو بلندی  عطا کی توحید سے انکے دامن کو مضبوطی سے وابستہ کیا۔

ان کے افکار اور انقلابی شاعری کے اثرات  صرف برِ صغیر تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ مشرق و مغرب میں بیشمار اذہان و قلوب انکی فکر سے متاثر  ہوئے۔ ان کا کلام قلب کو گرمانے اور روح کو تڑپانے والا تھا۔

(جاری ہے)

جہاں ایک جانب  مغرب کی عظیم مفکر ڈاکٹر این میری شمل انکے افکار سے متاثر ہوئیں تو دوسری جانب انڈونیشیا کے جنرل حبیبی کے بقول ’’انڈونیشیا کے مسلمانوں نے اپنی جنگِ آزادی کا آغاز علامہ اقبالؒ کےکلام کا انڈونیشین زبان میں ترجمے کے بعد کیا۔

‘‘ ان کے فارسی کلام نے ایران کے انقلاب میں اہم کردار ادا کیا ۔ ایران کے مشہور مفکر ڈاکٹر علی شریعتی   نے تو علامہ اقبال پر ایک کتاب ’’اقبال وما‘‘ بھی لکھی ہے۔
علامہ اقبال ؒنے خودی کے معنی اور مفہوم کو ایک نئی جہت عطا کی اور تصّوف کے عام تصور کے برعکس جذبۂ حریت، ملی غیرت اور جہدِ مسلسل کے فکر کی ترویج کی۔ اقبال کی شخصیت کی تعمیر میں قرآن کریم کا انتہائی گہرائی سے مطالعہ، رسولِ کریم ﷺ  سے بے پناہ اور والہانہ عشق اور تذکیہ نفس کی مشق نے اہم کردار ادا کیا اور انکی سوچ و فکر کو وہ وسعت اور عالمگیریت  عطا کی جو بہت کم لوگوں کے نصیب میں آتی ہے۔

علامہ سید ابوالحسن ندویؒ نے آپکے کلام کا عربی میں ترجمہ کیا جو عرب ممالک میں بے حد مقبول ہوا۔ ان کے نزدیک عشقِ رسول ﷺ وہ جذبہ محّرک ہے جو انسان کو مشکل ترین حالات کا سامنا کرنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔؎
 ہر کہ عشق مصطفےٰ سامان اوست
بحر و بر درگوشۂ دامانِ اوست
(جِسے نبی کریم ﷺ  کیساتھ محبت کی دولت حاصل ہے تو گویا دنیا کا کل خشک و تر اس کے دامن کے ایک گوشے میں موجود ہے۔


 بمصطفےٰ برمں  خیش راکہ دیں  ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است
(خود کو مصطفےٰ تک پہنچا کر دم لو – اس لئے کہ تم اس مقام تک نہ پہنچ سکے توسمجھ لو کہ بولہبی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔)
علامہ اقبال ؒ   نے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ مملکت کا تصور اسی لئے پیش کیا تھا تاکہ مسلمان حکمران، پالیسی ساز پورے نظام کو اسلامی نظریئے کے مطابق ڈھال سکیں جہاں قانون سازی کی بنیاد  قرآن و سنت  ہو جہاں حکمرانوں کے دل خوفِ خدا ،  عشقِ رسول ﷺ ، احساسِ ذمہ داری ، فرض شناسی سے سرشار ہوں، جو حکومت کو  ، قومی وسائل کو  ایک امانت سمجھیں  اور انہیں مخلوقِ خدا کی  فلاح کیلئے استعمال  کیا جائے اور ایسا ماحول  تشکیل دینے کی راہ ہموار کی جائے جہاں لوگ اپنی زندگی  اسلام کے سنہری اور آفاقی اصولوں کے مطابق گزار سکیں۔


علامہ اقبالؒ کے افکار کے مطابق ہر چیز کا مالک صرف اللہ ہے، خود انسان بھی اللہ ہی کیلئے ہے، اس کا جینا ،مرنا، اسکی قربانی، نماز  سب اللہ کیلئے  ہے۔ اسی لئے اس کے پاس موجود تمام وسائل، دولت  کاحقیقی مالک  بھی اللہ ہی ہے۔ جس دولت  کو اللہ  کی راہ میں خرچ نہ کیا جائے، جس سے حاجت مندوں  کی ضرورت پوری نہ کی جائے ، جِسے استحصال کا ذریعہ  بنایا جائے، ایسی دولت سانپ اور بچھو کے زہر سے بھی زیادہ خطرناک ہے جو پورے معاشرے کو زہر آلود کردیتی ہے، لوگوں کو طبقات میں بانٹ دیتی ہے، نفرتوں  اور حسد کو جنم دیتی ہے، جرائم میں اضافے کا سبب بنتی ہے جبکہ اسلام کا نظریۂ مملکت اور معیشت دولت کی محبت کے میل کچیل کو دل سے نکال کر اللہ کی محبت بھر دیتا ہے۔


 کرتا ہے دولت کو  ہر آلودگی سے پاک و صاف
منعموں  کو مال و دولت  کا بناتا ہے امیں
اس سے بڑھ کر  اور کیا فکر و علم کا انقلاب
بادشاہوں کی نہیں اللہ  کی ہے یہ زمیں
علامہ اقبالؒ  کے نزدیک  زمیں  پر وسائل کی تشکیل و پیداوار کا تمام عمل اور پروسس  اللہ کی مرضی، اسکی  مدد سے ہوتا ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ کی   مدد شامل نہ ہو تو یہ زمین کچھ بھی پیدا کرنے کے قابل نہ ہو۔

؎
پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون
کون دریاؤں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب
کون لایا کھینچ کر پچھم  سے باد سازگار
خاک اُسی کی ہے، اُسی کا ہے یہ نور آفتاب
کس نے بھری  موتیوں سے خوشۂ گندم کی جیب
موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب
دِہ خدایا! یہ زمیں تیری نہیں، میری نہیں
تیرے آبا کی نہیں، تیری نہیں میری نہیں
اسلامی تعلیمات اوراسلامی نظامِ معیشت کا مقصود یہ ہے کہ بندے صرف اللہ کے محتاج ہوں، بندوں کے محتاج نہ رہیں۔

؎
کس نبا شددرجہاں محتاج کس
نکتۂ شرع مبین ایں است و بست
علامہ اقبالؒ سرمایہ دارانہ نظام کی چیرہ دستیوں سے بخوبی واقف تھے وہ خود مغرب کے نظام کا دوران قیامِ مغرب مشاہدہ کرچکے تھے، سرمایہ دارانہ نظام جس طرح لوگوں کا بدترین استحصال کرتا ہے  علامہ اس سے بخوبی آگاہ تھے اسی لئے سرمایہ دارانہ نظام کی مذمت ان کے کلام میں جابجا ملتی ہے۔

؎
 چیست قرآن خوجہ را پیغام مرگ
دستگیر بندہ ٔبے ساز و برگ
(جانتے ہو قرآن  کی حقیقت کیا ہے؟ سرمایہ دار کیلئے موت کا پیغام اور بے سرو سامان لوگوں کا سہارہ و آسرا)
اور زرپرستوں، دولت کا ذخیرہ کرنے والوں کی مذمت ان الفاظ میں کرتے ہیں۔؎
ہیچ خیر از بندۂ زرکشی مجو
لن تنا لو البّر حتّٰی  تنفقو
(دولت سمیٹنے والے سے کسی بھلائی کی توقع نہ کرو۔

اس لئے قرآن نے صاف فرمادیا کہ تم نیکی کا مقام ہرگز حاصل نہ کرسکو گے جب تک کہ (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے کی عادت نہ ڈالو۔
سود وہ نحوست ہے جو معیشت سے ساری برکتیں اُٹھا لیتی ہے، دولت  و وسائل چند ہاتھوں میں مرتکز کردیتی ہے، امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بنادیتی ہے، نفرتوں ، کدورتوں اور حسد کو فروغ دیتی ہے۔ اسی لئے سود کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف جنگ قرار دیا ہے۔

؎
از رِبا آخر چہ می زاید فتن
کس نداند لذتِ قرضِ حسن
(سود سے سوائے فساد کے اور کس چیز میں اضافہ ہوسکتا ہے؟ (افسوس کہ) بغیر سود قرض دینے کی لذت کسی معلوم نہیں)
 از رِبا  جاں تیرہ، دل چوں سنگ و خشت
آدمی درند گی بے دندان و چنگ
(سود سے روح تاریک اور دل اینٹ پتھر کی طرح سخت ہوجاتا ہے اور انسان بغیر دانتوں اور  پنجوں کےدرندہ بن جاتا ہے)
اور مزید فرمایا:
 رزق خود را از زمیں بُردن رو ااست
ایں متاع، بندۂ و مِلک خدا است
(زمین سے اپنے آئے رزق کا حصول جائزہ ہے۔

لیکن یہ انسان کیلئے  صرف استعمال کی چیز ہے، ملکیت صرف خدا  کی ہے)
 بندۂ مومن امیں حق مالک است
غیر حق ہر شے کہ بینی ہالک است
(بندۂ مومن اپنے مال ، متاع کا صرف امین ہے، مالک خدا ہے۔ خدا کے سوا جو کچھ دیکھتے ہو سب فانی اور ہلاک ہوجانے والاہے)
ضرورت اس امر کی ہے ریاست مدینہ کے تصور کی عمل شکل دی جائے اور معیشت  کو اسلامی سانچے میں ڈھال  کر ملک کو سود ، استحصال  ، بیروزگاری جیسے عفریتوں سے نجات دلائی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :