وردی کی کشش

پیر 1 جون 2020

Dr Syed Mehboob

ڈاکٹر سید محبوب

اس وردی میں ایک عجیب سی مقناطیسی کشش ہے۔ یہی کشش اپنوں اور غیروں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ اس وردی کو پہننا، اپنے سینے پر سجانا، پاکستان کے نوجوانوں کی اکثریت کاخواب ہے۔ صحت مند، تندرست، توانا اور چاک و چوبند نوجوانوں کا تو کیا کہنا، موذی امراض میں مبتلا بچوں کی بھی یہی خواہش رہی ہے کہ وہ صرف ایک دن جی ہاں! صرف ایک دن کیلئے افواجِ پاکستان میں شمولیت اختیار کرکے اس وردی کو اپنے جسم پر سجا کر دشمن کو پیغام دیں کہ اس ملک کے وہ بچے بھی جن کے جسم میں تازہ اور توانا لہو نہیں دوڑ رہا لیکن اِن کا عزم اتنا توانا ہے کہ وہ بھی وطنِ عزیز کے دفاع کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔

اس وردی کو اپنے جسم پر سجانا اِن کی بھی سب سے بڑی آرزو، سب سے بڑی تمنا اور خواہش ہے۔

(جاری ہے)

کینسر کے مرض میں مبتلاعبدالباسط اسکی مثال ہے۔ جس نے ایک دن کیلئے اس وردی کو اپنے جسم پر سجایا۔ اس کے علاوہ کینسر میں مبتلا 14 سالہ جویریہ عالم اور 15 سالہ روبا رفیق وہ بچیاں ہیں، جنکی خواہش تھی کہ وہ ایک دن کیلئے پاک فوج کی وردی پہنیں چنانچہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے اِن معصوم بچیوں کے جذبے وولولے کو دیکھتے ہوئے اِنہیں ایک دن کیلئے اعزازی کیپٹن بنانے کے اِحکامات جاری کئے گئے اور اِن بچیوں نے واہگہ بارڈر پر پریڈ میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔


یہ وردی شہیدوں، غازیوں، جوانمردوں، حیدر کرار اور خالد بن ولید  کے روحانی وارثوں کی وردی ہے، یہ وردی شیر جوانوں کی ہے، یہ وردی وفا کے پیکروں کی ہے، اِن وردی پوشوں کی زبانوں پر اللہ اکبر کے نعرے، دل میں وطن عزیز کی محبت موٴجزن ہے۔ اس وردی کی آبرو اور وردی پوشوں کی سلامتی اور کامیابی کیلئے 22 کروڑ ہاتھ اُٹھتے ہیں، ملک کی کروڑوں مائیں نالہٴ نیم شبی میں یاد رکھتی ہیں، انکی فتح و نصرت کیلئے، انکی حفاظت کیلئے بچے، بوڑھے، جواں سب دُعاگو ہیں۔

اس ملک کے عوام اس وردی کو محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں، عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اور اِن وردی پوشوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتی ہیں۔ بچے اِن سے مصافحہ کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ وردی کیپٹن سرور، میجر طفیل، میجر عزیز بھٹی، میجر اکرم، میجر شبیر شریف، لانس نائیک محمد محفوظ، سپاہی سوار محمد حسین، پائلٹ آفیسر راشد منہاس، کیپٹن کرنل شیر خان، حوالدارلالک جان شہیدوں کی وردی ہے۔

یہ وردی لیفٹنٹ اسفند یار بخاری کی وردی ہے۔ یہ بریگیڈیئر طارق محمود (ٹی ایم) کی وردی ہے، یہ کیپٹن بلال شہید کی وردی ہے۔
پاکستان کے مختلف خطّوں، علاقوں، صوبوں،زبانوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے اپنے اپنے مختلف رنگوں اور خوبیوں کیساتھ یہاں آتے ہیں اور یہاں آکر اس وردی کو پہنتے ہیں او ر یہ وردی اپنی ایک منفرد شناخت دیتی ہے۔

اس وردی کو پہن کر یہ نوجوان ایسی مثالی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں، اور یہ وردی ان کی سب سے بڑی پہچان بن جاتی ہے۔ یہ نوجوان اس وردی کے رنگ میں خود کو رنگ دیتے ہیں، یہ وطنِ عزیز کے بیتے بن جاتے ہیں، یہ ملت کے جانباز کہلاتے ہیں، یہ اللہ کے سپاہی ہوجاتے ہیں۔ یہ قوم کے شجاع سپاہ بن کر سبز ہلالی پرچم کی آبرو، اپنی مٹی اپنی سرزمین کے دفاع اور حفاظت کیلئے تن من دھن نچھاور کردیتے ہیں، اپنی نیندیں، آسائش، آرام اس مقصدِ جلیلہ کی خاطر قربان کردیتے ہیں اوربارہا ایسا ہوتا ہے کہ یہ وردی مقدس لہو کی خوشبو میں رچی ان نوجوانوں کے گھروں میں واپس جاتی ہے۔

جسم اس وردی کے ساتھ نہیں ہوتا لیکن اس وردی سے آنے والی خوشبو کی مہک کہہ رہی ہوتی ہے ”ماں! میں نے اپنا فرض نبھا دیا ہے، تجھے مایوس نہیں کیا، اپنی مٹی، اپنے وطن کی حفاظت کیلئے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کردیا ہے، اس وردی کی لاج رکھ لی، سبز ہلالی پرچم کی آبرو کا پاس رکھا اور دشمن کے ناپاک عزائم اور غلیظ ارادوں کو ناکام بنادیا۔“ پھر اس وردی کو والدین چومتے ہیں، بہن بھائی عقیدت کی نظروں سے دیکھتے ہیں، دوست اِن نوجوانوں کی شہات پر رشک کرتے ہیں اور دل میں یہ تمنا مچلتی ہے کہ کا ش یہ وردی ہمارے سینوں پر بھی ہوتی اور ہم بھی اپنی جانیں اس وطنِ عزیز پر نچھاور کرکے امر ہوجاتے، تاریخ کا حصہ بن جاتے، ہمارا لہو بھی اس مٹی میں جذب ہوکر شجاعت کے گلاب کھلاتا۔

کیپٹن بلال ظفر شہید کی ماں کہتی ہیں کہ ”میں نے تو اِسے اسی دن اللہ کے سپرد کردیا تھا جس دن اس نے یہ خاکی وردی پہنی تھی۔“ جب بلال ظفر کی والدہ کو انکے بیٹے کی شہادت کی خبر ملی توا انہوں نے کہا ”پاک پروردگار تیرا لاکھ لاکھ شکر کہ تونے میرے بیٹے کی خواہش پوری کی۔ اس ملک کے دشمنوں کو میرا پیغام ہے کہ اس ملک میں ایک بلال نہیں ہزاروں بلال ہیں اور اس ایک بلال کی جگہ دس ہزار بلال سر پر کفن باندھ کر نکل آئیں گے۔

سپاہی محمد انیس کی والدہ کہتی ہیں کہ میرے پانچ بیٹے تھے ایک محمد انیس شہید ہوگیا اس کی جگہ افراسیاب کو میں نے فوج میں بھرتی کروادیا ہے، اب اسامہ، عبید، بھی انیس کے نقشِ قدم پر چل کر اپنے وطن کے دفاع کیلئے فوج میں بھرتی ہونگے۔ اِن کا کہنا ہے کہ انہوں نے انیس کی وردی کو خوشبو لگا کر اپنے چھوٹے بیٹے محمد عمر کیلئے رکھا ہوا ہے جب وہ جوان ہوگا تو وہ یہ وردی پہننے کی سعادت حاصل کریگا۔

انسانوں کی جدید تاریخ میں کیا کوئی ایسا جذبہ، ایسا عزم، ایسا ہمت کی مثال دکھا سکتا ہے۔ یہ جذبہ،یہ عزم، یہ شوقِ شہادت تو صرف قرونِ اُولیٰ کے زمانے کا ہے، اِسی جذبے سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔دشمن کان کھول کر سن لیں وہ پیغام جو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر باجوہ نے دیا ”تمہاری گولیاں ختم ہوجائینگی لیکن ہمارا عزم ختم نہیں ہوگا۔

“ لہٰذا دُشمنانِ پاکستان اس ملک کو، اس ملک کی سرحدوں کو اور اس وردی کو میلی نظر سے دیکھنا بند کردیں کیونکہ ناکامی انکے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔

جس سے خوفزدہ دہشتگردی ہے
وہ پاک فوج کی وردی ہے
شناخت جن کی جوانمردی ہے
انکے جسموں پہ سجتی یہ وردی ہے
خزاں ہے، گرمی ہے یا سردی ہے
سرحدوں کی حفاظت پر کھڑی یہ وردی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :