صحافت برائے فروخت

بدھ 30 جنوری 2019

Duaa Mirza

دُعا مرزا

 گئے دنوں کی بات ہے جب صحافت ایک مشن ہوا کرتی تھی مگر اب ایک ایسا پیشہ بن چکا ہے جس کے پیسے یا تو بہت کم ملتے ہیں یا پھر کئی کئی مہینوں آج کل کے لارے ہی تنخواہ ہوتے ہیں۔ آخر یہ پیشہ بھی تو ایک نشہ ہے جو جس قدر پرانا ہو اتنا ہی سرور آتا ہے۔ میڈیا کے ذوال کی سب سے بڑی وجہ مالکان ہیں جو خود تو بلٹ پروف گھر بنا لیتے ہیں مگر ملازم نہ تو اپنے بچوں کو اچھی زندگی دے پاتا ہے اور نہ ہی وقت۔

جو فارغ وقت ملتا بھی ہے وہ غربت کی شکایتوں کی نظر ہوجاتا ہے اور اہلخانہ کے طعنے استقبالیہ کے طور پر لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔تنخواہ تو آتی نہیں ہے اب تربیت اور اخلاقیات زیادہ دیر پیٹ کو ایمانداری کی تبلیغ بھی نہیں دے سکتیں۔
دور حاضرمیں یونیورسٹیوں میں ابلاغیات کا باقاعدہ ایک شعبہ ہے جہاں عملی صحافتی اقدار کے علاوہ سب پڑھایا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

چار سال کے بعد باقاعدہ نالائق اور کند ذہن بچہ جاہلیت کے کاندھوں پر سر رکھے ڈگری جب ہوا میں اڑاتا ہے تو یقین جانیئے تباہی کی ایک نئی پود انڈسٹری کو ایسے خراج تحسین پیش کر رہی ہوتی ہے جیسے اکیس توپوں کی سلامی دی جا رہی ہو۔کیونکہ ادارہ علوم ابلاغیات کے یہ سارے ستارے اینکر بننا چاہتے ہیں۔ تین ماہ کی انٹرن شپ کے بعد تنخواہ لگتی ہے جو قسمت والوں کو ہی ملتی ہے ورنہ باقی تو روز اس امید میں آتے ہیں کہ شاید کسی ایونٹ سے اچھا کھانا ہی مل جائے اور غم ذرا کم ہوجائے۔

 عام لوگوں کی نظر میں سکرین پر نظر آنے والوں کی اپنی ایک کلاس ہوتی ہے مگر کسی تقریب میں جب مٹن نظر آجائے تو انکی ساری کلاس آپکے سامنے عیاں ہوجائے گی ظاہر ہے کہ گھر سے روز گالیاں کھانے والوں کو لذیذ کھانا کم ہی نصیب ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو صحافت میں پچیس پچیس سال ہوگئے ان کے گھر والے تو ان کو ذہنی مریض ہی سمجھتے ہیں کیونکہ مالک کی نوکری کرتے کرتے وہ بیچارا کنگلا تو ہوتا ہی ہے ، روز روز کے ٹارچر سے پاگل بھی ہوجاتا ہے۔

 اب اگر خبر کی بات کریں تو صحافت کی نماز جنازہ پڑھتے پرھتے خود کو روز دفن کرنے والی بات ہے۔ کہیں چوری ہوجائے تو سی سی ٹی وی دو اور بریکنگ کرکے بھول جاو۔ گمشدہ چیز ملے نہ ملے" سانوں کیہ "۔ غریب کے ساتھ زیادتی ہوئی تو خبر ردی کی ٹوکری میں۔ نواز شریف نے جیل میں انڈے کا ناشتہ کیا۔۔ "بریکنگ نیوز"۔ گردے کے آپریشن کے لئے آئی اماں جنتی ایک ساٹ چلوانے کے لئے منتیں کرے اور ہسپتال میں بلی آجائے تو" بریکنگ نیوز "۔

پی ٹی آئی کی حمایت کا چینل ہے تو ن لیگ کی کھینچا تانی۔ مالک کی نواز شریف کے ساتھ اچھی ہے تو ایسی کی تیسی عمران خان کی۔ بھلے پھر رپورٹر نے خود ووٹ خادم رضوی کو ہی کیوں نہ دیا ہو وہ تو وہی کرے گا جو اس سے کروایا جائے گا۔ نیوز چینلز تو بے تحاشا تھے ہی اب ان ویب چینلز نے الگ ہی اپنی دکان لگا لی ہے۔ جو نوکری سے تنگ آجاتے ہیں یا نکالے جاتے ہیں وہ ایک دن بازار جاتے ہیں ساٹھ روپے کا مائیک خریدتے ہیں ، گھر کا ایک کونا صا ف کرتے ہیں۔

فیس بک پر دبایا "لائیو" کا بٹن اور چل بھئی 'تجزیہ کار' تیار۔۔ اور پھر اگر اوپو کا کیمرہ ہو تو زیادہ میک اپ بھی نہیں کرنا پڑتا۔ انتشار پھیلاو یا جہالت۔۔۔ کس نے کیا کہنا ہے۔۔۔ ڈیجیٹل دو ر ہے موجیں کریں۔۔۔"بہتر"،" بانوے" یا بیاسی کوئی سا بھی چینل بنا لو اور مالک بن جاو۔۔پیسے آتے رہیں گے صحافت تو وہ پہلے بھی نہیں کرتے تھے۔۔
 جرنلزم کے ایتھکس تو دور کی بات عام ٹرمینالوجیز ہی پوری عمر نہیں پتہ لگتیں۔

۔۔ بریکنگ پھٹے سے لیکر لال پٹی پر چلنے والی خبروں کی اصل ٹرمز کیا ہیں۔۔۔ سو میں سے ایک کو پتہ ہوتی ہے۔۔پھر اگر قسمت امریکہ لے جائے تو وہا ں کے چینل میں جب کوئی ای این جی کا مطلب ہی پوچھ لے تو فوری پاکستانی صحافیوں کی ذہانت کیری ڈبے پر آکر ختم ہوجاتی ہے اب اس میں قصور کس کا ہے؟ یقین جانئے صحافت کے علاوہ آپ سب کا ہے جو صرف گلیمر کی خاطر اس سمندر میں کودے ہیں۔۔۔۔ مالک کی ٹیسی کرکے بنایا ہوا پیراشوٹ جس دن پھٹا تو امان کی کوئی جگہ نہیں ملنی اور عزت۔۔۔۔۔ وہ تو تلوے چاٹ کر ویسے ہی نہیں رہتی۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :