
سلسلہ دلداری کا۔۔۔!
اتوار 14 ستمبر 2014

فرخ شہباز وڑائچ
(جاری ہے)
اس مرتبہ اس لڑکے کا سامنا اس دوسرے نام سے تھاجو سن رکھا تھا اس سے کچھ مختلف نہ پایا شفقت والا رویہ دیکھ کر نوجوان کا حوصلہ کچھ بڑھا ۔پھر یہ ملاقاتیں لمحوں سے منٹوں۔۔۔منٹوں سے گھنٹوں میں بدل گئیں ،طویل نشستیں جمنے لگیں نوجوان کی حوصلہ افزائی ہونے لگی تھی۔اس نوجوان کے ذہن میں آنے والے سینکڑوں سوالوں کے جواب ملنا شروع ہو گئے تھے جس سے نوجوان کی ”سپیڈ“ مزید بڑھ گئی تھی۔شہر کی علمی و ادبی محفلوں میں کہیں نا کہیں اس نوجوان کا نام بھی آنے لگا تھااس میں اس نوجوان کا کوئی کمال نہ تھا ۔آج نوجوان پیچھے مڑ کر دیکھتا تھاتو ان دنوں کو اپنی زندگی کے قیمتی ترین دنوں میں شمار کرتا ہے۔ان سطور کے لکھنے والے نے کبھی ان سہانے دنوں کا تصور بھی نہیں کیا تھا وہ دو نام ہمیشہ کے لیے لکھنے والے کے دل میں بس گئے۔آج بھی جب راقم کوئی ٹوٹی پھوٹی تحریر لکھ پاتا ہے تو اس کے دل سے ان دو ناموں کے لیے دعائیں نکلتیں ہیں۔میرے اساتذہ کرام کا نام توفیق بٹ اور عباس تابش ہے۔جب خبر آئی کہ استاد محترم عباس تابش کو ان کی گرانقدر خدمات پر حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ امتیاز دیا جا رہا ہے تو مجھے وہ سب محفلیں اور شامیں یاد آگئیں جو استاد محترم کے ساتھ گزری تھیں۔خوشی کی سرشاری کی کیفیت بھی عجیب ہوتی ہے نا یہ بتائی جا سکتی نا ہی لفظوں میں بیان کی جا سکتی ہے۔سچ پوچھیں تو یہ تمغہ امتیاز کے لیے ایک اعزاز ہے کہ وہ موجودہ دورکے غزل کے بے تاج بادشاہ عباس تابش کے پا س جا رہا ہے۔جہان پاکستان کے ادارتی صفحات سے منسلک ہونے کی خوشی اس لیے بھی مجھے بہت تھی کہ استاد محترم خاکسار کی تحریر پر بھی نظر کیا کریں گے۔ 15جون 1961ء کو میلسی ضلع وہاڑی میں پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں کون کہہ سکتا تھا کہ یہ بچہ ایک دن اتنا نام کمائے گا کہ میلسی کی سرزمین اپنے اس سپوت پر فخرکرے گی۔آپ دوران تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور میں رسالہ ”راوی“ کے ایڈیٹر بھی رہے ہیں زمانہ طالبعلمی میں جب طالبعلموں کے مشاغل کچھ اور ہی ہوا کرتے ہیں اس وقت اردو کا یہ عظیم شاعر گورنمنٹ کالج کے درختوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر یہ شعر لکھ رہا تھا
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اْٹھ کر چپ چاپ
ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ان کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابش
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
فرخ شہباز وڑائچ کے کالمز
-
گلگت بلتستان میں کون حکومت بنائے گا؟
ہفتہ 14 نومبر 2020
-
لال حویلی سے اقوام متحدہ تک
اتوار 6 ستمبر 2020
-
مولانا کے کنٹینر میں کیا ہورہا ہے؟
پیر 4 نومبر 2019
-
جب محبت نے کینسر کو شکست دی
ہفتہ 19 اکتوبر 2019
-
نواز شریف کی غیرت اور عدالت کا دروازہ
ہفتہ 12 اکتوبر 2019
-
رانا ثنااللہ جیل میں کیوں خوش ہیں؟
جمعہ 11 اکتوبر 2019
-
مینڈک کہانی
منگل 1 اکتوبر 2019
-
اک گل پچھاں؟
اتوار 8 ستمبر 2019
فرخ شہباز وڑائچ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.