رانا ثنااللہ جیل میں کیوں خوش ہیں؟

جمعہ 11 اکتوبر 2019

Farrukh Shahbaz Warraich

فرخ شہباز وڑائچ

شہریار آفریدی کا اصرار مجھے لاہور کی احتساب عدالت کھیینچ کرلے گیا۔ وطن عزیز کی خوش قسمتی ہے کہ اس وقت پاکستان پر صالح اور پاکباز حکمران حکومت کر رہے ہیں،کوہاٹ کے شہریار آفریدی انہی میں سے ایک ہیں۔ آفریدی قبیلے کے اس فرزند کا یہ قول  ”میں نے جان رب کو دینی ہے“ ہی رانا ثنا اللہ کو گناہ گار قرار دینے کے لیے کافی ہے۔ ان الفاظ کی ادائیگی کے وقت ان کا چہرہ جس طرح سے سرخ ہوتا ہے کوئی صاحب ایمان ان کی بات رد نہیں کرسکتا۔

مگر عدالتیں جذبات اور اصرار پر نہیں ٹھوس ثبوتوں پر فیصلے کرتی ہیں۔ آفریدی صاحب کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ”یہی ثبوت“ ہیں۔ رانا ثنااللہ اپنے وکلاء کے ہمراہ جب جوڈیشل کمپلیکس کے دوسرے فلور پر پہنچیس تو مجھے آگے بڑھ کر پوچھنا ہی پڑا آخر وہ کون سے ثبوت ہیں جو شہریار آفریدی نے دیکھ لیے ہیں۔

(جاری ہے)

اس سوال کے جواب میں رانا ثنا اللہ نے بتایا کہ سیف سٹی کے ریکارڈ نے میرے مو قف کو درست ثابت کیا ہے کہ ٹول پلازہ پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی، میں نے کبھی زندگی میں ہیروئن نہیں دیکھی، شہریار آفریدی کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔


رانا ثنا اللہ نے کہا کہ یہ لوگ بتائیں موقع پر کہاں برآمدگی ہوئی، ساری کارروائی تھانے جاکر فرضی کی گئی۔ میں نے کبھی زندگی میں ہیروئن نہیں دیکھی، نہ کبھی سگریٹ پیا، خود یہ لوگ وزیر اعظم ہاؤس میں بیٹھ کر نشے کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور اگر کسی ادارے کے آفیشلز کسی سازش کا حصہ بنے ہیں تو یہ بدقسمتی ہے۔

اس موقع پر رانا صاحب نے دوسری مرتبہ آرمی چیف سے مطالبہ کیا وہ اس معاملے پر اے این ایف کے ان افسران کے خلاف کاروائی کریں جن کی وجہ سے یہ ادارہ بدنام ہورہا ہے۔ اس مرتبہ انہوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر کا نام لے کر ان سے بھی درخواست کی یاد رہے رانا ثنااللہ اس سے پہلے عدالت میں ہی دوسری پیشی کے موقع پر آرمی چیف سے یہ مطالبہ کرچکے ہیں۔
سماعت شروع ہوئی تووکلاء کے درمیان کچھ اس طرح سے مکالمہ ہوا۔


اس ملک میں عدالتیں نہ ہوں تو یہ لوگوں کو کچا کھا جائیں، سید فرہاد علی شاہ ایڈووکیٹ
یہ جو کارروائی ہو رہی ہے کس قانون کے تحت کارروائی کی جارہی ہے، پراسکیوٹر اے این ایف
اگر ڈیوٹی جج ٹرائل سن سکتا ہے تو پھر ملزموں پر فرد جرم عائد کر دی جائے، پراسکیوٹر اے این ایف
یہ باہر جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، پراسکیوٹر اے این ایف
اس کیس کو ہائی جیک کیا جا رہا ہے، پراسکیوٹر اے این ایف
یہ بشیر بوٹا گاما نہیں ہے یہ ریاست کی نمائندگی کرتے ہیں، وکیل ملزم
ہمارے کیس میں ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام، یہ قتل بھی کر دیں تو چرچا بھی نہیں ہوتا، اے این ایف پراسکیوٹر
ریمانڈ میں توسیع ہوئی۔

اگلی پیشی پر رانا ثنا کیس کے مدعی کو بھی بلایا گیا کوشش کرکے میں آگے بڑھا جیل کا معمول پوچھا۔ رانا ثنا اللہ نے جیل میں کتابیں منگوارکھیں ہیں وہ ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔ مگر اس بات پر انہیں دکھ ہے جب جیل حکام انہیں بتاتے ہیں کہ کچھ ادارے صرف جیل میں ان پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں یہ محسوس ہوتا ہے یہ ”خاص“ سلوک صرف ان کے ساتھ کیا جارہا ہے۔

اسی جیل میں موجود خواجہ سعد رفیق،سلمان رفیق،احد چیمہ،فواد حسن فواد کو 100 دن کی قید میں وہ ایک مرتبہ نہیں دیکھ سکے۔ جس وارڈ میں مجھے بند کیا گیا ہے وہاں کسی کو آنے کو اجازت نہیں،یہاں تک کہ جو عملہ میری نگرانی پر ہے ان کو بھی باہر سے تالا لگا کر بند کردیا جاتا ہے۔ ایک فرشی گدا گھر سے منگوایا تھا جیل میں وہ بھی مجھ سے واپس لے لیا گیا۔

یہ سب باتیں سنتے ہوئے مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی ہر دور میں حکومتیں اپنے حریفوں کے ساتھ اسی قسم کا رویہ رکھتی ہیں۔ مگر حیرانی مجھے تب ہوئی جب پتا چلا رانا ثناللہ جیل میں خوش ہیں۔ راناثنااللہ یہ سمجھتے ہیں ان پر جو کیس بنایا گیا ہے۔ ایک عام آدمی بھی جانتا ہے یہ سراسر سیاسی انتقام ہے۔ اس لیے ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کیس میں حکومت کی ٹھیک ٹھاک بدنامی ہورہی ہے۔رانا ثناللہ کی بیگم نبیلہ ثنا اس بات پر مطمئن ہیں کہ ان کے شوہر کا لاپتہ کرنے کی بجائے جیل میں رکھا گیا ہے،ورنہ اس سے مختلف حالات کا سامنا یہ خاندان ماضی میں کرچکا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :