گلگت بلتستان میں کون حکومت بنائے گا؟

ہفتہ 14 نومبر 2020

Farrukh Shahbaz Warraich

فرخ شہباز وڑائچ

گلگت شہر کے مرکز میں کھڑے ہوکر شہر کی طرف نظر دوڑائیں تو ہر طرف رنگ برنگے پارٹی پرچموں کی بہار نظر آتی ہے۔بازار سے گزرتے ہوئے ممکن ہے جئے بھٹو کا نعرہ لگانے والے نوجوان آپ کے پاس سے گزریں،”ووٹ کو عزت دو“ والے کہیں نہ کہیں آپ کو اپنی کارکردگی کے بارے میں بتائیں یا کہیں قریب سے”اب کی بار انصاف سرکار“ کی آوازآ پ کو سنائی دے۔

یہ سب یہاں کا معمول نہیں ہے گلگت ہو یا ہنزہ،دیامر ہو یا سکردو جہاں بھی جائیں ایک ہی بات ہوگی اور ایک سوال گونجے گا۔ گلگت بلتستان میں اگلی حکومت کون بنائے گا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے زیادہ نہیں تو کچھ نہ کچھ گلگت بلتستان کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔
دستیاب معلومات کے مطابق ثقافت اورقدرتی حسن سے مالامال گلگت بلتستان تاریخی ریاست جموں کشمیر کا حصہ تھا۔

(جاری ہے)

لیکن سنہ 1948 میں مقامی لوگوں کی مدد سے یہ پاکستان کے زیر کنٹرول آ گیا۔ تقریبا 15 لاکھ آبادی کا یہ خطہ اپنے دیو مالائی حُسن، برف پوش پہاڑوں، خوبصورت وادیوں اورپھلوں سے لدے باغوں کی وجہ سے کسی جنت سے کم نہیں۔ لیکن اپنی رنگینیوں کے ساتھ اس علاقے کی جعرافیائی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔
اس کی سرحدیں چین، انڈیا، تاجکستان اور پاکستان سے ملتی ہیں، جن میں سے تین ملک ایٹمی طاقت ہیں۔


گلگت بلتستان، چین پاکستان اقتصادی راہداری کا دروازہ ہے۔ یہاں کا اپنا گورنر اور وزیرِ اعلیٰ ہے لیکن قانونی اعتبار سے اس علاقے کو پاکستان میں وہ آئینی حقوق حاصل نہیں جو ملک کے دیگر صوبوں کو حاصل ہیں۔
پہلے یہاں پر ’سٹیٹ سبجیکٹ رول‘ نام کا قانون نافد تھا جس کے تحت یہاں صرف مقامی لوگوں کو ہی سرکاری ملازمتیں کرنے، سیاسی عہدے رکھنے اور جائیدادیں خریدنے کا حق حاصل تھا۔

لیکن ستر کی دہائی میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اسے ختم کر دیا گیا۔
اس کے بعد یہاں مختلف قوانین کے تحت نظام چلایا جاتا رہا لیکن مقامی لوگوں کا ہمیشہ سے ہی مطالبہ رہا کہ پاکستان باقاعدہ طور پر گلگت بلتستان کے ساتھ الحاق کر کے اسے مستقل طور پر پاکستان میں ہی ضم کر لے۔ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے24حلقوں میں انتخابات ہوں گے، ہرحلقے سے ایک رکن کا انتخاب کیاجائیگا۔

گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی میں کل نشستوں کی تعداد 33 ہے جس میں تین ٹیکنوکریٹس، جبکہ چھ خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔ گلگت بلتستان میں 24 انتخابی حلقوں میں رجسٹر ووٹرز کی کل تعداد 7 لاکھ 45 ہزار 361 ہیں، جس میں 3 لاکھ 39 ہزار 992 خواتین ووٹرز بھی شامل ہیں۔
15نومبر کو گلگت بلتستان کے عوام کے ووٹوں سے نئی حکومت آئے گی لیکن پچھلے دو ماہ سے چلنے والی دھواں دار انتخابی مہم میں عوامی سطح پر پیپلز پارٹی پہلے نمبر پر نظر آتی ہے۔

ایک ماہ ہونے کو ہے علابلاول بھٹو زرداری کا قیام یہاں ہے۔ گلگت بلتستان کا شاید ہی کوئی علاقہ ہو جہاں بلاول نہ گئے ہوں۔ گلگت بلتستان کے دشوار راستے ہیں،سفر کٹھن ہے،انٹرنیٹ چیونٹی کی رفتار سے چلتا ہے مگر اس سب کے باوجود پیپلزپارٹی نے جاندار انتخابی مہم چلائی ہے۔ سابق گورنر  گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ،مصطفی نواز کھوکھراور پارٹی کے نمایاں رہنماؤں کے ساتھ بلاول بھٹو کے قیام نے ہلچل مچادی ہے۔

  گلگت بلتستان میں آخری حکومت ن لیگ کی تھی۔مگر الیکشن سے پہلے الیکٹیبلز نے اپنی راہیں ن لیگ سے جدا کرلیں۔کابینہ کا حصہ رہنے والے وزراء بھی وفا نہ کرسکے ایسے میں سابق وزیر اعلی  گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کہتے ہیں انہوں نے کسی ان دیکھی قوت کی وجہ سے یہ کام کیا ہے۔ حافظ حفیظ الرحمن سمیت  گلگت بلتستان ن لیگ کی قیادت یہاں بہت بڑی کامیابی کی امید نہیں رکھتے ہیں۔

ن لیگ کے مقامی رہنما 3سے 5 نشستوں پر اپنی کامیابی کو یقینی سمجھتے ہیں۔حفیظ الرحمن نے الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے احتجاج بھی کیا تھا۔ گلگت بلتستان کے یوم آزادی کی تقریب میں وزیر اعظم عمران خان کا آنا اور سیاسی تقریر کرنے کو وہ انتخابات سے پہلے دھاندلی کا نام دیتے ہیں۔خود مجھے اس تقریب میں شرکت کا موقع ملا،وزیراعظم پاکستان اپنی تقریر میں پاک فوج کی قربانیوں کا ذکر کرتے رہے۔

انہوں نے  گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا اعلان کیا۔
انہوں نے یہاں اہم نقطہ اٹھایا کہ موجودہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی اپوزیشن کی جانب سے مخالفت پر انہیں یہ احساس ہوا کہ انہوں نے ان دونوں عہدوں پر درست انتخاب کیا ہے۔ اس تقریر کے اختتامی الفاظ یہ تھے ”اب دیکھتے ہیں کس کی ٹانگیں کانپتی ہیں اور کس کے ماتھے پر پسینہ آتا ہے“۔

   گلگت بلتستان کے نگران وزیر اعلی میر افضل خان جو ڈی آئی جی پولیس رہ چکے ہیں کے ساتھ ایک طویل نشست کا موقع ملا۔ جس میں انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم کو انہوں نے مدعو کیا تھا مگر جب وزیراعظم یہاں پہنچے تو سیکورٹی نے ان کو بھی آگے جانے سے روک دیا وہ تو بھلا ہوگورنر کے پروٹوکول آفیسر کی نظر ان پر پڑگئی اور اس نے وزیر اعلی کو سٹیج تک پہنچایا۔

نگران وزیراعلی اس حد تک صاف گو ہیں کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کی کابینہ کے لوگ تقریب سے ناراض ہوکر گئے کیونکہ ان کی نشستیں ہی موجود نہ تھیں جبکہ لاہور اور اسلام آباد سے آئے ہوئے اینکرز کی نشستیں موجود تھیں۔ اس پر وزیراعلی نے جواب دیا انہوں نے تو پہلے ہی اپنی کابینہ کو کہا تھا اس تقریب میں آنے کی ضرورت نہیں،پروٹوکول نہ ملا تو ناراض نہ ہونا۔

وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور اور چیف آرگنائزر پی ٹی آئی سیف اللہ نیازی یہاں جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔تحریک انصاف کے انتخابی جلسے یہی کر رہے ہیں۔ یہاں عوام میں علی امین گنڈا پور کے حوالے سے غم و غصہ پایا جاتا ہے۔عوامی سطح پر اس بات کو ناپسند کیا گیا کہ وزیر صاحب نے الیکشن سے پہلے  گلگت بلتستان کی طرف دیکھنا پسند نہیں کیا جب سے الیکشن سر پر آئے ہیں۔

وہ لوگوں سے مل رہے ہیں۔ن لیگ،پی پی،پی ٹی آئی کے علاوہ مجلس وحدت مسلمین،اسلامی تحریک پاکستان،جے یو آئی،جماعت اسلامی سمیت کئی آزاد امیدوار بھی میدان میں ہیں۔ تحریک انصاف وفاق میں حکومت ہونے کی وجہ سے فائدے میں ہے۔ کیونکہ کشمیر ہو یا گلگت بلتستان یہاں اسی کی حکومت بنتی ہے جس کی حکومت وفاق میں موجود ہو۔ن لیگ سے پہلے پیپلز پارٹی  گلگت بلتستان میں حکومت کر رہی تھی مگر وفاق میں ن لیگ کی حکومت کے بعد جب انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی کو بری طرح سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔

پی ٹی آئی اندر کھاتے کئی امیدواروں سے وعدے کرچکی ہے ابھی تک جوڑ توڑ کا عمل جاری ہے۔ اس بات کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا جب جماعت اسلامی کی مقامی قیادت کی جانب سے مجھے بتایا گیا اس مرتبہ آپ ہمیں  گلگت بلتستان میں نمائندگی کرتے دیکھیں گے یہ میرے لیے سرپرائز تھا، دلچسپ بات یہ ہے کہ گلگت شہر کے حلقہ نمبر2 میں ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کے امیدوار بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔

یاد رہے ن لیگ  گلگت بلتستان کے صدر حافظ حفیظ الرحمن بھی اس حلقے سے جیتنے کے لیے پر امید ہیں۔ عوامی رائے دیکھیں تو لگتا پیپلز پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ٹھہریے! یہاں حکومت بنانے کے لیے صرف یہی کافی نہیں کچھ عوامل مزید شامل ہوتے ہیں تب جاکر حکومت بنتی ہے۔ تحریک انصاف الیکٹیبلز،اتحادی پارٹی اور آزاد کامیاب امیدواروں کے ساتھ مل کر یہاں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔

مریم نواز کی طوفانی انتخابی مہم نے ن لیگ کے کارکن کو چارج کردیا ہے۔ مریم نواز جہاں بھی گئیں بھرپورر استقبال کیا گیا۔ مگر ن لیگ کی قیادت خود بھی جانتی ہے ان الیکشنز میں ان کا نمبر تیسرا ہے۔ طاقتور حلقے کیا چاہتے ہیں؟ کیا وہ انتخابات پر اثر انداز ہورہے ہیں؟ یہ سوال سرینا ہوٹل کے ڈائننگ ٹیبل پر موجود ایک طاقت ور شخصیت سے پوچھا گیا۔

جواب آیا کسی بھی پارٹی کے لوگوں سے اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ مزید پوچھنے پر بتایا گیا ہم صرف  گلگت بلتستان کو پرامن دیکھنا چاہتے ہیں کوئی بھی پارٹی حکومت بنائے ہمیں اس سے فرق نہیں پڑتا۔ کون سی پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگی؟ جواب آیا پاکستان تحریک انصاف۔ پی پی کو گرین سگنل دے دیا گیا ہے کہ وہ یہاں حکومت بنائے اور پی ڈی ایم میں اپنا کردار ادا نہ کرے یہ میرا اگلا سوال تھا۔

”بالکل نہیں ایسی کوئی ڈیل نہیں ہورہی۔
کیا انتخابات میں کہیں اسٹیبلشمنٹ اثرانداز ہورہی ہے؟ یہ سوال میں نے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے مقامی اہم رہنماؤں سے پوچھا تو جواب ملا ”نہیں ان کا کوئی خاص عمل دخل نہیں“۔ یہ میرے لیے خوشگوار خبر تھی۔ قمر زمان کائرہ پیش گوئی کرچکے ہیں۔ گلگت بلتستان کا وزیر اعلی جیالا ہوگا۔ مگر پاکستان پیپلزپارٹی کا سب سے بڑا مقابلہ اس پرسیپشن سے ہے کہ  گلگت بلتستان میں اسی کی حکومت آتی ہے جس کی مرکز میں پہلے سے حکومت موجودہو۔کیونکہ یہاں پر جو ترقیاتی کام ہونے ہیں وہ مرکز کی مدد سے ہی ممکن ہیں۔ اس لیے کیا پیپلزپارٹی یہ تاثر توڑ پائے گی؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :