
آزادی صحافت اور ہم
اتوار 3 مئی 2015

فرخ شہباز وڑائچ
اس مناسبت سے غیر سرکاری ادارے فریڈم ہاوٴس نے 2013ء کے دوران پریس فریڈم پر ایک سروے رپورٹ جاری کی تھی، جس کے مطابق گزشتہ دس برسوں کے مقابلے میں آج کی صورتحال زیادہ خراب ہے
متوازن رپورٹنگ، صحافیوں کا تحفظ اور میڈیا پر حکومتی اثرورسوخ کم یا نہ ہونا، غیر سرکاری ادارے فریڈم ہاوٴس کے مطابق دنیا کی صرف چودہ فیصد آبادی ایسے حالات میں سانس لینے کے قابل رہ سکی۔
(جاری ہے)
امریکا ایک ایسا ملک ہے جہاں صحافت تو بظاہر آزاد ہے تاہم وہاں حکومتی انفارمیشن پالیسی سخت تنقید کی زد میں ہے۔ وہاں اکثر ہی قومی سلامتی کے نام پر سرکاری معلومات خفیہ رکھی جاتی ہیں اور صحافیوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ذرائع بتائیں، جنہوں نے انہیں باخبر کیا ہے۔ امریکا میں حکام نے اے پی کے ایک صحافی کی ٹیلی فون کال ریکارڈ بھی کی جس پر احتجاج بھی ریکارڈ کروایا گیا تھا مگرامریکی حکام آج بھی اسی طرح کی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔
مصر میں گزشتہ برس ابلاغ عامہ سے جڑے کارکنان کے لیے صورتحال خطرناک شکل اختیار کر گئی ۔ محمد مرسی کی معزولی کے بعد صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ مرسی خود بھی پریس فریڈم کے دشمن قرار دیے جاتے تھے۔ مصر میں 2013ء کی آخری ششماہی میں بے شمار صحافی گرفتار کیے گئے۔ فریڈم ہاوٴس کے مطابق اس دوران فوجی کارروائی کے نتیجے میں پانچ صحافی ہلاک بھی ہوئے۔
جہاں کئی ممالک میں پریس فریڈم کے حوالے سے صورتحال بگڑی ہے، وہیں کچھ ممالک میں یہ صورتحال بہتر بھی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر مالے میں صدارتی انتخابات کے انعقاد اور اسلامی باغیوں کو پسپا کرنے کے بعد سیاسی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ مالے میں 2012ء کی فوجی بغاوت کے بعد بند کر دیے گئے متعدد میڈیا ادارے اب دوبارہ کام کرنے لگ گئے ہیں۔
پریس فریڈم کے حوالے سے جن دیگر ممالک میں مثبت تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں، ان میں کرغزستان بھی شامل ہے، جہاں گزشتہ برس صحافیوں پر ہونے والے حملوں کی شرح کافی کم ہو گئی۔ اسی طرح نیپال میں بھی صحافت پر حکومتی کنٹرول ختم کر دیا گیا۔ تاہم اس کے باوجود بھی ان دونوں ممالک میں صحافیوں کو دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔اس رپورٹ میں چونکہ پاکستان کا ذکر کہیں ملتا اس لیے پاکستانی صحافت کے لیے عرض کرتا چلوں جتنا استحصال صحافیوں کا مالکان کر رہے ہیں اسکی مثال کم از کم اور کہیں نہیں ملتی۔یہ مالکان کسی آمر حکمران سے بڑھ کر ظلم ڈھارہے ہیں۔
پاکستان میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون بھی قرار دیا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے الیکٹرانک میڈیا کا بے لگام گھوڑا ریاست کے باقی ستونوں کو جتنا مرضی زخمی کرلے کوئی پوچھنے والا نہیں۔کیا ہی اچھا ہو آزادی صحافت کے حق میں ریلیاں نکالنے سے پہلے ہم اپنی اقدار،روایات اور اپنے ہی ہاتھوں ہونے والی تباہی پر غور کریں۔ہمیں سوچنا ہوگا کیا ہم اپنے ہی گھر کی دیواریں تو نہیں گرارہے۔ہمیں دیکھنا ہوگا کہیں ہم خود اپنی تہذیب کی دھجیاں تو نہیں اڑارہے۔اب کی بارہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا۔۔۔!
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
فرخ شہباز وڑائچ کے کالمز
-
گلگت بلتستان میں کون حکومت بنائے گا؟
ہفتہ 14 نومبر 2020
-
لال حویلی سے اقوام متحدہ تک
اتوار 6 ستمبر 2020
-
مولانا کے کنٹینر میں کیا ہورہا ہے؟
پیر 4 نومبر 2019
-
جب محبت نے کینسر کو شکست دی
ہفتہ 19 اکتوبر 2019
-
نواز شریف کی غیرت اور عدالت کا دروازہ
ہفتہ 12 اکتوبر 2019
-
رانا ثنااللہ جیل میں کیوں خوش ہیں؟
جمعہ 11 اکتوبر 2019
-
مینڈک کہانی
منگل 1 اکتوبر 2019
-
اک گل پچھاں؟
اتوار 8 ستمبر 2019
فرخ شہباز وڑائچ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.