لوگ کیا کہیں گے؟

منگل 30 مارچ 2021

Faryal Hameed

فریال حمید

کہنےکویہ چارلفظ ہیں لیکن یہ چارلفظ چاردن کی زندگی کوناسوربنا دیتے ہیں،ہم پوری زندگی اپنی ذات کواہمیت دینےکی بجائےاسی خوف میں جیتے جیتےمرجاتےہیں کہ لوگ کیا کہیں گے؟سب سےپہلےتویہ سمجھنےکی ضرورت ہےکہ ہم لوگوں کواتنی اہمیت دےکیوں رہے ہیں؟ جتنی اہمیت ہم لوگوں کودیتےہیں اگراتنی ہی اہمیت ہم اپنی ذات کو دیں توزندگی خوبصورت اور آسان ہوجائے۔

لوگ کیا کہیں گے؟ اس ایک جملے کے دباو میں زندگی میں بہت سےکام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتے،اس کی سب سےبڑی وجہ یہ ہےکہ ہم نےاپنی ذات کے فیصلے لوگوں پرچھوڑدئیے ہیں،اپنی ہی زندگی پرہمارااختیارنہیں رہا، ہم خوداعتمادی سےمحروم زندگی گزارنے پرمجبور ہیں۔ایک عورت ساری زندگی اپنے شوہرکے ظلم وستم میں گزاردیتی کہ لوگ کیا کہیں گے کہ عورت کوگھربسانا نہیں آیا۔

(جاری ہے)


نجی زندگی میں معاشرے کی مداخلت کے پیش نظروالدین بیٹیوں کے پلو کے ساتھ یہ نصیحت باندھ کر بھیجتے ہیں کہ تمہاری ڈولی جا رہی جنازہ آنا چاہیئے اوریہی ہوتا ہے ڈولی میں سج سنورکر پیا گھر سدھارنے والی تشدد زدہ چہرے کے ساتھ اس گھر سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہوجاتی ہےلیکن جیتے جی اس دہلیزکوپارکرنے کی جرات نہیں کرتی ۔
ایک باپ بیٹی کی شادی کے وقت اس کی پسندکواہمیت اس لئے نہیں دیتا کہ بات نکلے گی تو بدنامی ہوگی میں لوگوں کوکیاجواب دوں گا۔

پسند کی شادی کی اجازت اسلام دیتاہے لیکن ایک باپ کے لئے یہ فیصلہ سزائے موت سے کم نہیں ہوتاکہ بیٹی نے اپنی خواہش کااظہارکردیا۔اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟
میری ایک بہت اچھی دوست ہیں جوکہ ایک خوشحال ازدواجی زندگی گزاررہی ہیں،کسی چیز کی کمی نہیں بس کمی ہے تو اولاد کی اوراس کمی کا انہیں دکھ کم اورخوف زیادہ ہے،لوگوں کے سوالات نے انہیں مسلسل ایک خوف اورپریشانی میں مبتلا کررکھا ہے
کسی محفل میں شامل ہونے کے لئے کپڑوں کاانتخاب بھی یہی سوچ کرکیاجاتاہےکہ لوگوں کوہم اچھے دکھائی دیں۔

بچپن سے جوانی اورجوانی سے بڑھاپا اسی سوچ اوردائرے میں رہ کرگزرجاتاہے کہ لوگوں کے ساتھ ان کی ترجیحات بھی اہم ہیں۔یہ نہ کرو،وہ نہ کرو،یہاں نہ جاو،وہاں نہ جاوو،یہ نہ پہنو،کوئی دیکھے گا توکیا کہےگا  
ہر وقت کی بے جا آپ کوذہنی مریض بنا دیتے ہیں اورپھر ذہنی مریض بنا دینےوالےہی لوگ سوال کرتے ہیں کہ یہ تواچھا بھلا تھا اسکو کیا ہوا؟افسوس یہ ہےکہ ہمارے گھروں میں تربیت بھی اسی چیزکی دی جارہی ہے کہ لوگوں کی سوچ کاخیال رکھتے ہوئے زندگی میں قدم بڑھاناہے۔

جن لوگوں کواہمیت دیتے دیتےہم اپنامعیارکھودیتے ہیں کیا وہ اس کےباوجودآپ کاساتھ دیتےہیں یاآپ کوتنقید کانشانہ بنانے سےپرہیزکرتے ہیں،بلکل بھی نہیں۔ایک پارسا انسان پرتہمت لگانے سے پہلے لوگ ایک باربھی نہیں سوچتےتوہم کس گماں میں ہیں؟ہم کیوں لوگوں کے رحم وکرم پر اپنی زندگی کو گھٹ گھٹ کرجیتے ہیں،زندگی کے بہت سے فیصلے لوگوں کی ترجیحات کی بناپرکئے جاتے ہیں۔

آخر کیوں؟اپنی ذات پریقین کامیابی کی طرف پہلا قدم ہے،ہم آزد پیدا ہوتے تو قید میں کیوں مرنا چاہتے ہیں؟وقتی طورپراپنے حوصلے بلند کرنے کی کوشش توکرتے ہیں لیکن ان حوصلوں کو برقراررکھنےکی ہمت نہیں رکھتے۔ہماری زندگی میں لوگ اگرمداخلت کرتے ہیں تو قصوروارہم ہیں،جولوگوں کواتنا اختیاردیتے ہیں کہ وہ ہماری اجازت کے بغیرہمارے لئے کسی بھی راستے کا انتخاب کرسکیں۔

تھک گئی ہوں ان لوگوں سے جوآج تک اس سوچ سے باہرہی نہیں نکل پائےکہ لوگ کیا کہیں گے؟تنقید کا نشانہ بنانا لوگوں کاکام ہے،لوگوں کی تنقید سے کچھ سیکھنا ہمارا کام ہے۔صحیح اورغلط راستے کا انتخاب توانسان خود کرتا ہے پھراس معاشرے کی سوچ کے مطابق زندگی گزارنے کی کیا ضرورت ہے؟لوگ صرف آپ کی زندگی کا سکون چھین سکتے ہیں،زندگی کو سنوارنہیں سکتے۔اس سوچ کے ساتھ جیناچھوڑ دیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔اس سوچ کےساتھ آگے بڑھیں کہ ہم اپنی ذات سے کس حد تک مطمئن ہیں۔مختصرسی زندگی کوآزادی کے ساتھ جیناہرانسان کاحق ہےاور اس حق کی حفاظت کرناہمارا فرض ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :