سلام مادرِعلمی! شکریہ اساتذہ کرام!

جمعرات 21 فروری 2019

Fazal Haq Shehbaz Khail

فضل حق شہباز خیل

ہر انسان اپنی زندگی میں کئی زاویوں کا رنگ دیکھتا ہے۔ ایام زیست میں بے شمار لمحات وواقعات ہر شخص کی یادوں کا نہ بھولنے والا حصہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ شب وروز کا تیزی سے سفر، زمانے کی گردش اور ماہ وسال کے بدلتے موسموں میں پیش آنے والی داستانیں بَھلا کوئی کیسے بُھلاسکتا ہے؟ ہم میں سے ہر کوئی اپنے وجود کے رگ وپے میں کچھ دکھ اور کچھ خوشی کے نغمے سموئے ہوئے ہے جو قلب ودماغ کو مسحور کر رہا ہوتا ہے۔

یادوں کی اس بارات میں زمانہ طالب علمی بھی کیا عجیب دور ہوتا ہے۔ وہ طالب علم ہی کیسا جسے پیسے کمانے کی فکر ہو، نوکری کا غم ستاتا ہو، لوگوں سے لین دین کے معاملات طے کرنا ہوں، وہ تو فکر معاش اور غم روزگار سے بے نیاز ہوکر بس یہی سوچ رہا ہوتا ہے کہ سبق یاد کرنا، امتحان کی تیاری کرنی ہے، اگلے سال کس معروف ادارے میں جاناہے، تعلیمی سرگرمیوں سے ہٹ کر ہر معاملے اور ہر مسئلے سے بے غم، ہر آن سکون اور ہر لمحہ چین ہی چین۔

(جاری ہے)


آج بھی جب کبھی ہم تنہا، اندھیرے میں بیٹھتے ہیں، بند کمرے میں سوچتے ہیں تو ہمیں ہمارا دور طالب علمی، ہمار اماضی بے اختیار یاد آنے لگتا ہے، وہ بھی اتنی شدت سے کہ دل چاہتا ہے کہ جلدی سے، ابھی اور اسی وقت کسی نہ کسی طرح اپنے اس مدرسے میں، اپنے ماضی میں پہنچ جائیں۔ ہم میں سے ہر ایک کا دل ایسی کئی حسین یادوں سے بھرا پڑا ہوگا۔ کون ہے جس کا دل واپس اپنے اس حسین دور میں لوٹ کر جانے کو نہیں چاہے گا۔

ہر انسان کی یہی خواہش ہوگی کہ کاش وہ ایک بار پھر اس زمانے میں لوٹ جائے۔ مگر ایسا ہوتا کہاں ہے؟ ماضی کب پلٹ سکتا ہے؟ دور طالب علمی بھلا پھر لوٹ سکتا ہے؟ آج فکر معاش اور غم روزگار کے تار ِعنکبوت میں الجھے ہم لوگ ماضی کو یاد ہی کرسکتے تھے۔
اس میں پلٹنے کا سوچ ہی سکتے تھے ...مگر سلام ہو مادرِعلمی کو جس نے ہمیں کم سے کم ایک دن ہی سہی، اپنے دور طالب علمی میں لوٹنے کا موقع فراہم کیا۔

یہ 6 جنوری 2019 کی یخ بستہ صبح تھی جب ہم ایک عرصے بعد مادر علمی جامعة الرشید پہنچے۔ وہی ماحول، وہی اساتذہ کرام کی محبتیں، وہی دوستوں اور ہم جماعت ساتھیوں کی بے تکلفیاں، خلوص، اپنائیت اور ہمدردی کی وہی خوشبو جسے ہم نے مدت بعد محسوس کیا۔ ایک روزہ اجتماع میں بڑوں کی نصیحتوں اور فکرانگیز گفتگو پر تفصیلی بات تو ان سطور میں کرنا مقصود نہیں، بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ دور طالب علمی میں پلٹنے کا موقع فراہم کرنے اور گاہ بہ گاہ اپنے شاگردوں کی فکر کرنے پر
سلام مادرِعلمی! شکریہ اساتذہ کرام!
دیگر مدارس کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے فضلاء کرام کو ہر سال جمع کرکے ان سے گفت وشنید کریں، ان کے مسائل جانیں، نیک مشن ان کے حوالے کریں، فضلاء کی کارکردگی کا جائزہ لیں اور ان کی سرپرستی کریں تو اس سے نہ صرف ان فضلاء پر احسان ہوگا بلکہ اشاعت دین اور تبلیغ اسلام میں بھی ممدو معاون ہوگا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :