یادگار محفل

جمعہ 8 فروری 2019

Fazal Haq Shehbaz Khail

فضل حق شہباز خیل

اسے زمانے کا ستم کہا جائے یا اپنی کمزوری، جب کبھی دوستوں کے ساتھ جھیلوں، آبشاروں اور سبزہ زاروں کی سیر کرنے اور ان کی دلچسپ گفتگو کا لطف اٹھانے کا جی چاہتا ہے تو خود ہی دل کے نہاں خانوں سے ایک صداآتی ہے کہ ”اب نہ وہ ہم ہیں نہ عالَم ہے بیابانوں کو…“
سچ تو یہ ہے کہ وقت کی تہی دامنی اور ذاتی مصروفیات اتنی بڑھ گئی ہیں کہ سیر و تفریح اورپررونق محفلوں کا انعقاد ایک خواب بن کررہ گیاہے۔

اب تو کسی کی ناتمام آرزووٴں ،تشنہ تمناوٴں اور ٹوٹی پھوٹی حسرتوں کی فہرست بنائی جائے تو اس میں یقینا بچپن کے دوستوں کے ساتھ ان نشستوں کا بھی تذکرہ ہوگا جو اب ایک طرح سے ناپید ہوکر رہ گئی ہیں۔
بھلاہو بچپن کے ساتھی اعجاز الحق کا جس نے گزشتہ دنوں پرانے دوستوں کو اکٹھا کیا اور ان کے ساتھ ماضی کی کئی یادوں کو تازہ کیا۔

(جاری ہے)

اس محفل میں تاج محمد ساگر ،عثمان غنی پٹن اور جاوید کندیائی شامل تھے۔

بچپن سے متانت اور غیرسنجیدگی کے توازن سے آراستہ ،دھیمے لہجے میں اظہار خیال کرنے والے ان دوستوں نے محفل کو چار چاندلگادیے ۔ رات بھر زندگی کے ان گزرے ایام کا ذکر ہوتا رہا جو اب حسین یادوں کا حصہ ہے۔ بہت سی باتیں جنہیں زمانے کی تیز رفتاری اور مصروفیات کی دھول نے دھندلا دیا تھا، ایک بار پھر موضوع بحث بنیں۔
ہنسی مذاق اورخوشگوار ماحول کے باوجود دورانِ گفتگو ایک لمحہ ایسابھی آیا کہ بے اختیار آنکھوں میں بادل سے آگئے اور محفل پر خاموشی چھاگئی۔

یہ اس دار فانی کو الوداع کہنے والے ان بزرگوں کی باتیں تھیں جو دنیاسے ایسے رخصت ہوگئے جیسے پکے ہوئے پھل ایک دم زمین پرگرجاتے ہیں،آناًفاناً نظروں سے اوجھل!ایسے وقت میں جب ان کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے، وہ منوں مٹی اوڑھ کرایک ایسے سفرپرچلے گئے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ ویسے توسیانے انسان کی زندگی کو ایک قطار سے تشبیہ دیتے ہیں جس میں سب اپنی موت کی باری کا انتظار کررہے ہیں اور یہ ایک کڑوی حقیقت ہے مگرمانتاکوئی نہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ موت بھی ایک پرکشش سفرکی ابتدا ہے۔ زندگی کی خوبصورتی اسی نکتے میں پنہاں ہے کہ اس نے ایک دم ختم ہو جاناہے۔ میں وہاں بیٹھا کافی دیر تک صرف یہ سوچتارہاکہ اگرچندسانس مزیدمل جاتے تو کیا حرج تھا۔ بہرحال جوخداکی مرضی،وہی ہماری رضا۔جب مالک بلاوابھیج دے تو پھرکیسی نافرمانی؟
باتوں بھری رات فجر کے وقت اپنے اختتام کو پہنچی ۔

صبح واپس آفس جاتے ہوئے میں مسلسل سوچ رہا تھا کہ پرانے دوست جیسے نایاب رشتے اب کہاں میسرآتے ہیں۔ہرچیزبدل سکتی ہے، وقت کا دھارا ہمیں تبدیل کرسکتاہے مگروہ پرانے جذبوں کو مرتے دم تک ختم نہیں کر سکتا۔ یہی زندگی کاحسن ہے، اسی میں زیست کاراز پوشیدہ ہے اور یہی خوشی کا وہ جھونکا ہے جو نہ صرف ذہنوں پر پڑی گرد اڑادیتا ہے بلکہ کامیابی کے دھندلے راستوں کو بھی بڑی حد تک واضح اور شفاف کردیتا ہے۔


 اللہ ان دوستوں اور محفلوں کوقائم رکھے۔ پرانے دوست بھی بیش بہاتحفے اور قیمتی نعمت سے کم نہیں۔ انسان کودہائیوں کاذہنی سفرکروانے پرقادران لوگوں کے بارے میں شاعر نے کیا خوب کہاتھا…
چند لمحوں کے لیے ایک ملاقات رہی
پھر نہ وہ تو نہ وہ میں اور نہ وہ رات رہی
کرہ ارض نے دیکھا ہی نہ تھا وہ خورشید
جس کی گردش میں شب و روز مری ذات رہی
اب تو ہر شخص اجالوں میں کھڑا ہے عریاں
کون سی شکل پس پردہ ظلمات رہی
سرد مہری مرِے لہجے میں بھی ہوگی لیکن
تجھ میں خود بھی تو نہ پہلی سی کوئی بات رہی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :