کیا کراچی کا اصل مسٔلہ انتظامی ہے یا کچھ اور؟ ۔ آخری قسط

پیر 21 ستمبر 2020

Ghazali Farooq

غزالی فاروق

پچھلی قسط میں ہم نے کراچی کے حوالے سے  تین ایسے مسائل کے بارے میں بات کی تھی جنہوں نے   کراچی کو  اس ابتر صورتحال تک   پہنچانے میں براہ راست کردار ادا کیا  ہے۔ ان مسائل میں سے ایک مسٔلہ  ملک میں حکومتی اقتدار کی تقسیم  وفاقی، صوبائی اور مقامی یعنی   تین سطحوں   پر مشتمل ہونا ہے  جس وجہ سے ہر سطح کی حکومت کے دائرہ کار اور ذمہ داریوں کا درست تعین  دشوار ہو جاتا ہے۔

  دوسرا مسٔلہ ملک میں ان تینوں سطحوں پر موجود حکومتی عہدوں کے لئے الگ الگ  انتخابات  کرانے کا ہے جس کے نتیجہ میں یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ وفاق، صوبے اور شہر میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں قائم  ہو جائیں ۔   اور چونکہ ایک جماعت کی  اچھی سیاسی کارکردگی دوسری جماعت کی مقبولیت یا شہرت کی کمی  کا ذریعہ بنتی ہے ،لہٰذا اقتدار کی ان سطحوں   پر موجود سیاسی جماعتوں کی آپسی رسہ کشی ریاست کو مفلوج  کر کے رکھ دیتی ہے۔

(جاری ہے)

تیسرا مسٔلہ  بھی ان تینوں  سطحوں پر الگ الگ انتخابات منعقد کرنے کے نتیجے میں  پیدا ہوتا ہے اور وہ کسی لسانی یا نسلی عصبیت پر مبنی جماعت کا کراچی کی مقامی حکومت میں منتخب ہو کر آ بیٹھنا ہے جس کے نتیجے میں باقی لسانی اور  نسلی برادریوں کے حقوق متاثر ہو جاتے ہیں۔
لیکن یہ مسائل محض نظری نہیں ہیں بلکہ  ان کے  عملی اظہار کا مشاہدہ  ہم گاہے بگاہے  کرتے رہتے ہیں ۔

   اگر ہم  کراچی اور سندھ کی ہی مثال لیں تو  کچھ ہی عرصہ پہلے  گندم کی قلت کے مسٔلہ نے اپنا سر اٹھایا تھا ۔  ملکی قانون کے مطابق چونکہ وفاقی حکومت  گندم کی پیداوار ، اس کی کھپت اور  اس کے محفوظ ذخائر  پر نظر رکھنے کی ذمہ دار ہے ، جبکہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری    گندم کی خریداری اور اس کو گوداموں میں حفاظت سے رکھنے کی ہے، تو جب  سندھ میں گندم کی قلت کا مسٔلہ در پیش ہوا تو  عوام کے شور و غل پر وفاقی حکومت  کی جانب سے بیان جاری ہوا  کہ سندھ حکومت نے اس کی    درست وقت پر  خریداری  کو یقینی نہیں بنایا جس وجہ سے  گندم کی قلت پیدا ہوئی۔

  جبکہ سندھ حکومت  کا کہنا تھا  کہ وفاقی حکومت ملک میں گندم کی کھپت کا درست اندازہ نہیں  لگا سکی جس وجہ سے سندھ حکومت اس کی صحیح  وقت پر   خریداری  نہ کر سکی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ایک دوسرے پر اسی  الزام تراشی   کی وجہ سے تاخیر ہونے کی صورت میں گندم کی قلت ایک بحرانی شکل اختیا کر گئی۔  
اسی طرح ٹڈی دل کے مسٔلہ کو دیکھ لیں جو نومبر 2019 میں اٹھا اور اس نے فصلوں کو تباہ کرنے کا آغاز کر  دیا۔

اس پر  صوبائی حکومتوں نے یہ بیان دیا کہ   یہ مسٔلہ تو وفاقی  حکومت  کے ٹھیک کرنے کا  ہے  کیونکہ ایک بین الاقوامی معاہدے کے تحت ایک ادارہ دنیا بھر  کے  ممالک  کو مطلع  کرتا رہتا  ہے کہ ٹڈی دل کے لشکروں کا رخ اب کس سمت ہے   ۔ اس پر پہلے تو وفاقی حکومت  کی جانب سے یہ بیان جاری ہوا کہ ذراعت کے معاملات صوبائی حکومتوں کے زیر اثر ہیں لہٰذا وہ اسے حل کریں ۔

لیکن پھر  جب اسی کھینچا تانی میں معاملہ شدت اختیار کر گیا تو وفاقی حکومت نے  اس سلسلہ میں ملک بھر میں  ایمرجنسی نافذ کر دی۔ لیکن اس ایمرجنسی نافذ کرنے کے بعد بھی کئی مہینوں تک کچھ نہ ہونے کے بعد آخر کار جون  ۲۰۲۰ کے مہینہ میں  ترکی سے ایک جہاز ٹڈی دل کے سپرے کی لئے  منگوایا گیا۔ اس تمام تاخیر کی وجہ سے  ملک  کے چاروں صوبے  ٹڈی دل سے متاثر ہوئے اور ملک بھر کی ذراعت کو شدید ترین نقصان پہنچا۔


 ایسا ہی کچھ معاملہ کرونا وائرس کے سلسلہ میں بھی دیکھنے کو ملا کہ جب وفاقی حکومت  کی جانب سے صوبوں کو اس مرض سے نمٹنے سے متعلق کوئی رائے دی جاتی  تو صوبائی حکومتوں کی طرف سے یہ کہا جاتا کہ صحت کا معاملہ  تو صوبوں سے متعلق ہے  اور وفاقی حکومت کو ان کے معاملات  میں مداخلت  نہیں کرنی چاہیئے ۔  لیکن جب اس وباء سے نمٹنے کے لئے  ادویات اور طبی آلات کی ضرورت کی بات  آئی تو   صوبائی حکومتوں نے کہا کہ ان کی در آمد کا اختیار تو وفاقی حکومت کے پاس ہے اور صوبائی حکومت اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتی۔

  لہٰذا اختیارات کی  یہ پیچیدہ تقسیم  اس وبا ء  پر  بر وقت قابو نہ پائے جانے پر منتج ہوئی۔
ان تمام مثالوں سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ   ان  اور ان جیسے  دیگر تمام مسائل کا تعلق اس بات سے نہیں کہ مختلف سطحوں پر حکومتی اقتدار پر فائز عہدہ داران ملکی    دستور و قوانین پر صحیح طرح سے عمل نہیں کر رہے کہ اگلے انتخابات میں  بہتر لوگوں کو ووٹ دے کر ان کی جگہ پر لایا جائے۔

   بلکہ ان کا تعلق خود اس وفاقی طرز حکومت کے ساتھ ہے کہ جس میں حکومتی اقتدار کی تقسیم  خود  اس نظام کی اپنی ساخت میں شامل ہے ۔ اور اس کی وجہ سمجھنا بہت آسان ہے۔ وفاقی نظام کا موجد مغرب ہے۔اہل  مغرب نے جب اس نظام کو وضع کیا تو ایسا انہوں نے اپنے ہاں رائج  اس  مذہبی بادشاہت  (ریلیجس مونارکی) کے نظام سے چھٹکارے کے نتیجہ میں کیا کہ جس میں اقتدار اعلیٰ  پوپ اور بادشاہ  کے پاس تھا۔

     چونکہ پوپ اور  بادشاہ کے عہدوں  میں تمام طاقت کا ارتکاز تھا جس کے ذریعے انہوں نے عوام کا استحصال کیا اور عوام کو  غلام بنا کر رکھا  تو مغرب اس نتیجہ پر پہنچا کہ :
"Power corrupts, and absolute power corrupts absolutely".
یعنی " طاقت فساد پیدا کرتی ہے، اور مطلق طاقت مطلق فساد پیدا کرتی ہے "۔  لہٰذا  روشن خیالی (انلائٹنمنٹ) کے دور میں اٹھنے والے    انقلاب برطانیہ اور انقلاب فرانس   کے بعد مغرب نے اپنے لئے جو حکومتی نظام وضع کیا وہ ان کے  اس سابقہ  ذاتی تجربہ کے عین  رد عمل  پر مبنی تھا۔

اس لئے سب سے بنیادی اصول جو انہوں نے اپنایا وہ حکومتی  اقتدار کی تقسیم  کا تھا تا کہ اس اقتدار کے ارتکاز کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ممکنہ مطلق العنانیت سے بچا جا سکے۔لہٰذا یہ مغرب ہی تھا جس نے   موجودہ  وفاقی نظام حکومت کو  تشکیل دیا  جس میں حکومتی اقتدار   وفاقی، صوبائی اور مقامی     جیسی مختلف سطحوں میں منقسم ہوتا ہے۔ لیکن تاریخ کے ان حقائق  پر سے گرد کو مزید ہٹانے سے    جو ایک اہم بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ مغرب نے وفاقی  طرز کا  نظام  حکومت اس وجہ سے اختیار نہیں  کیا تھا کہ یہ بہت کامیاب نظام حکومت کے طور پر ثابت شدہ تھا ۔

بلکہ انہوں نے تو اس نظام کو پہلی بار خود وضع کیا تھا اور اس کے نتائج تو اس کے نفاذ کے بھی ایک  خاطر خواہ عرصے کے بعد نمودار ہونے تھے۔ انہوں نے یہ نظام  دراصل بادشاہت  اور پاپائیت کے نظام کی ضد کے طور پر وضع کیا تھا ۔ لہٰذا ایک رد عمل پر مبنی ہونے کی وجہ سے  یہ نظام  الگ سے اپنی  کوئی  منفرد اورٹھوس نظریاتی بنیاد اس وقت بھی نہیں رکھتا تھا۔

تو اگر آج کے تجربے کے بعداگر  یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ  پاپائیت   کی طرح یہ وفاقی طرز کا نظام  حکومت  بھی ڈیلیور نہیں کر سکا  تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر  اس کو چھوڑ  کر کسی اور نظام حکومت کی طرف کیوں نہیں جایا جا سکتا؟ اور اگر   اختیار کئے  جانے والے نئےنظام کا نظریاتی اعتبار سے  اور تاریخی تجربے سے بھی  کامیاب ہونا  ثابت شدہ  ہو تو اس کو اختیار کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟
   تاریخ کے صفحات کو مزید  پلٹنے پر ہمیں   حضرت عمر ابن الخظاب ؓ کا یہ مشہور  قول نظرآتا ہے کہ :"  اگر عراق میں بھی  کوئی بھیڑ یا خچر   چلتے ہوئے ٹھوکر کھا جائے ، تو مجھے یہ خوف ہے  کہ مجھ سے  (قیامت کے روز) یہ سوال کیا جائے گا کہ تم نے راستوں کو ٹھیک کیوں نہیں کیا"۔

اسی طرح خلیفہ عمر بن عبد العزیز ؒ  کا قول ہے  کہ :" بیجوں کو پہاڑوں کی  چوٹیوں پر بھی بو دو  تا کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ مسلمانوں کی سرزمینوں میں  پرندے بھوکے رہ گئے"۔  اگر ہم مسلمانوں کے اس دور کے نظام حکومت  کا مطالعہ کر یں تو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے  کہ ان کے ہاں نظام  حکومت وحدانی طرز کا  تھا ، نا کہ وفاقی۔ لہٰذا  مراکش سے لے کر خراسان تک پوری ریاست کے  شہریوں کی  ضروریات کو پورا کرنے کے حوالے سےجوابدہ     ان کا مرکزی حکمران یعنی خلیفہ ہوا کرتا تھا۔

   وہ اس   بات کا ذمہ دار تھا کہ  عوام کی بنیادی  ضروریات  یعنی خوراک، لباس اور رہنے کے لئے چھت کو ان کے لئے بہم   پہنچائے  اور اس کے ساتھ ساتھ  ان کی صحت، تعلیم اور  امان کو بھی  یقینی بنائے۔ اب ان تمام فرائض کو پورا کرنے  کے لئے خلیفہ صوبوں پر والی(گورنر) اور شہروں پر عامل ( میئر) مقرر کرتا تھا۔ چونکہ  خلیفہ کے اقتدار  میں رہنے کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے ، نہیں تو ریاست کی عدلیہ کا  قاضی  اسے معزول  کرنے کا اختیار  بھی رکھتا تھا   ، اس لئے خلیفہ کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ والی اور عامل کے طور پر ایسے لوگوں کو منتخب کرے  جو عوام کے امور کی دیکھ بھال کرنے کی پوری   پوری صلاحیت رکھتے ہوں۔

اسی طرح خلیفہ ان والیوں اور عمال کو ان کی غیر تسلی بخش کارکردگی کی بنیاد پر کسی بھی وقت    بر طرف کر کے  ان کی جگہ پر  کسی ایسے  شخص کو منتخب کر نے کا اختیار رکھتا تھا جو اس  عہدہ کا زیادہ اہل ہو۔ اور اگر کسی حکومتی عہدہ دار سے اس کے علاقے کے اکثر لوگ غیر مطمئن ہوں تو خلیفہ پر یہ  لازم تھا کہ اس شخص کو ہٹا کر کسی اور کو اس عہدہ پر فائز کرے۔

اس وجہ سے والیوں اور عمال کی  بھی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ لوگوں کی جانب  سے ان پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو   پورا کرتے رہیں۔   چونکہ  صوبوں کے والی اور شہروں کے عامل خلیفہ کی طرف سے ہی مقرر اور برطرف ہوتے تھے ، اور  خلیفہ انہی کے ذریعے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتا تھا  لہٰذا وہ اور خلیفہ مل کر  ایک ایسی  مربوط ٹیم کی سی حیثیت رکھتے تھے جن کا ہدف  ایک ہی  ہوتا تھا یعنی لوگوں کے امور کی دیکھ بھال ۔

اور یہ وہ ذمہ داری تھی کہ  جس پر ان  کا  اپنے عہدوں پر برقرار رہنا  بھی منحصر تھا۔  طوالت  کے باعث  یہاں ایسی مثالوں کا ذکر کرنا ممکن  تو نہ ہو گا لیکن  اس سلسلہ میں قاضی ابو یوسف (م۱۸۲ھ) کی کتاب الخراج  اور امام ماوردی (م ۴۵۰ ھ) کی احکام السلطانیہ  اٹھا کر دیکھ لیں یا پھر حالیہ دور سے شبلی نعمانی (م ۱۹۱۴ ء) کی الفاروق ، ہر ایک میں  یہ واقعات  پڑھنے  کو ملتے ہیں  کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعد خلفاء راشدینؓ  کس طرح  والیوں اور عمال کا تعین خود کیا  کرتے تھے اور ان کے لئے ایسی  شخصیات  کا انتخاب کرتے تھے جن کے لئے صرف  متقی ہونا کافی نہیں تھا  بلکہ ایسی  سیاسی بصیرت  کا حامل ہونا بھی لازمی  تھا  کہ جس کے ذریعے وہ عوام کے امور کی دیکھ بھال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

  اسی طرح ایسے بہت سے واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں جن میں مثال کے طور پر حضرت عمر ؓاپنے  والیوں کا کڑا احتساب کرتے ہیں، اطمینان بخش کارکردگی نہ ہونے کی صورت میں انہیں تبدیل کر دیتے ہیں اور عوام  کی اپنے والیوں اور عمال   سے متعلق  شکایات  کی  باقاعدہ سنوائی اور ان  کا ازالہ کرتے ہیں۔
یوں اسلام کے اس  وحدانی طرز کے نظام میں  حکومتی اقتدار مختلف سطحوں میں  تقسیم شدہ نہیں ہوتا  کہ جس کی وجہ سے  وفاقی ، صوبائی یا شہری سطح کے عہدہ دار  ان اپنی ذمہ داری    قبول نہ کرتے ہوئے ملبہ ایک دوسرے پر گرا  سکیں ۔

پھر چونکہ  اس نظام میں عوام کی طرف سے  صرف خلیفہ کا ہی  انتخاب    کیا جاتا ہے  جو کہ  بیعت  کے ذریعے اسے اپنا خلیفہ چنتے ہیں اور پھر خلیفہ والیوں اور عمال پر مشتمل اپنی ٹیم  خود تشکیل دیتا  ہے ، لہٰذا اس نظام کو  یہ مسٔلہ بھی  در پیش نہیں ہوتا  کہ   ایک ہی وقت میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندگان مختلف  حکومتی عہدوں پر  انتخابات  کے نتیجے میں    فائز  ہو جائیں    اور ان میں آپسی رسہ کشی  کے باعث پورا حکومتی ڈھانچہ غیر مؤثر ہو کر رہ جائے   ۔

اسی طرح وہ نظام   اس  مسٔلہ سے  بھی پاک  تھا کہ لسانی و نسلی تعصب کا شکار لوگ عوام سے  ووٹ لے کر حکومتی عہدوں پر براجمان ہو جائیں  اور   اس کا خمیازہ عوام میں سے باقی برادریوں کو اپنے حقوق کے کچلے جانے کی صورت میں  بھگتنا پڑے۔ تو   کیا کراچی کے مسائل کا حل محض  انتظامی تبدیلیوں سے ممکن ہے یا اس کے لئے  نظام کی تبدیلی کی ضرورت ہے  ؟۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :