جمہوری نظام حکومت میں اقلیتوں کی محرومی

منگل 4 جنوری 2022

Ghazali Farooq

غزالی فاروق

27 نومبر 2021 کو سندھ اسمبلی نے لوکل گورنمنٹ (ترمیمی ) بل 2021 پاس کیا جس میں لوکل باڈیز کے اکثریتی اختیارات واپس لے کر صوبائی حکومت کو دے دئیے گئے ہیں۔ یوں پیپلز پارٹی نے اندرون سندھ اپنی اکثریت کے بل بوتے پر کراچی کے ترقیاتی فنڈز ایک بار پھر اپنی مٹھی میں کر لئے۔  2008 سے جب سے جمہوری حکومتیں بحال ہوئی ہیں ، تب سے پیپلز پارٹی کراچی کے ترقیاتی فنڈز کو مسلسل اندرون سندھ منتقل کرتی جا رہی ہے کیونکہ کراچی کی 42 براہ راست صوبائی نشستوں کے مقابلے میں باقی سندھ کی 88براہ راست  نشستوں کی اکثریت ، بقیہ سندھ کو  باآسانی حکومت تک پہنچا دیتی ہے۔

یوں کراچی کی ترقی جمہوری نظام کے باعث رکی ہوئی ہے کیونکہ کراچی پورے  سندھ میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے  اور اس وجہ سے صوبائی حکومت بنانے میں کلیدی حیثیت نہیں رکھتا۔

(جاری ہے)

پس سندھ میں بننے والی   صوبائی جمہوری حکومت کو دو سے تین  کروڑ کی آبادی کے اس شہر کی کوئی  خاص پرواہ نہیں ہوتی ۔
 اگر قومی سطح  پر دیکھا جائے تو بعینہ  یہی حال  بلوچستان کا ہے، جس کے پاس 342 قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے صرف 5 فیصد یعنی 17 سیٹیں ہیں، اور قومی حکومت کو تشکیل دینے میں اس کا کردار اکثر و بیشتر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

لہٰذا جمہوری نظام میں  ایسا ہی سلوک پھر  اس کی ترقی کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے، سوائے یہ کہ عوامی دباؤ میں بعض اوقات کچھ وعدے وعید کر لئے جاتے ہیں ، جیسے حقوق بلوچستان پیکج وغیرہ، اور ان پر بھی عمل درآمد کی نوبت بمشکل ہی آتی ہے ۔
اور اس قسم کی مثالیں ان گنت ہیں۔ کراچی پیکج بھی اسی طرح زبانی جمع خرچ تک محدود رہا۔ فاٹا کے ساتھ سات دہائیوں تک یہی کھیل کھیلا گیا اور آج بھی یہی صورتحال جاری ہے۔

جنوبی پنجاب کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ پس واضح ہے کہ وہ علاقے جو حکومت کی تشکیل میں کلیدی حیثیت نہ رکھیں ، ان کی ترقی جمہوریت میں رکی رہے گی خواہ وہ بڑی آبادی کے علاقے ہی کیوں نہ ہوں!
لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آمریت کو قبول کر لیا جائے۔ اور نہ ہی اس کا  یہ مطلب ہے کہ جمہوریت اور آمریت میں سے کم برے نظام کو  نا چاہتے ہوئےگلے لگا لیا جائے۔

بلکہ جمہوریت اور آمریت کے اس گھن چکر سے  ہٹ کر ایک نظام حکومت اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بھی نازل کیا ہے جس کے تمام  خدو خال تفصیل کے ساتھ قرآن پاک  میں  اور رسول اللہ ﷺ کی سنت مبارکہ   میں بیان کر دیے گئے ہیں ۔ یہ نظام خلافت کے نام سے  ماضی میں نافذ العمل بھی رہا ہے جس کا آغاز خلافت راشدہ سے  اور اختتام خلافت عثمانیہ پر ہوا ۔  خلافت میں  اسلام کے تمام  نظاموں کو مکمل اور ہماگیر انداز سے نافذ کیا جاتا ہے۔

  خلافت میں یہ جائز نہیں ہوتا  کہ شہری حقوق، وسائل کی تقسیم، ضروریات زندگی کو  بہم پہنچانے ، ترقیاتی کاموں کے انجام دینے  اور ان جیسے دیگر سیاسی امور میں  ریاست کے شہریوں کے درمیان  کوئی  تفریق کی جائے۔  پس اگر پاکستان میں  اسلام کا نظام حکومت یعنی خلافت  قائم ہو جائے  تو خلیفہ کیلئے لازم ہے کہ وہ باجوڑ، پشین، کراچی، روہڑی، مکران، لاہور، اسلام آباد یا گلگت کے درمیان کوئی تفریق نہ کرے۔

  اگر پاکستان میں خلافت قائم ہوتی تو آج بنگلادیش پاکستان ہی کا ایک صوبہ ہوتا کیونکہ خلافت اسلام آباد، چٹاگانگ، سلہٹ یا کراچی کو ایک طرح سے ترقی دیتی، اور بنگلادیش میں وہ احساس محرومی جنم  ہی نہ لے پاتا جس سے ہماری دشمن ریاست نے فائدہ اٹھایا۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خلافت میں اسلامی حکومت کے سربراہ یعنی  خلیفہ کو ہر پانچ سال بعد امت سے ووٹ نہیں لینا ہوتا، بلکہ وہ شریعت کے نفاذ کی شرط پر تاحیات خلیفہ رہتا ہے ۔

اسلئے وہ اپنے اقتدار کیلئے حکومت سازی کی اکثریت رکھنے والوں سے بلیک میل نہیں ہوتا۔ بلکہ شریعت کے نفاذ میں کوتاہی  اس کیلئے سب سے بڑا رسک بن سکتی ہے جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر قاضی مظالم اس کو عہدے سے معزول کر سکتا ہے۔ اس وجہ سے خلیفہ    ہر علاقے کے لوگوں کے حقوق ، بغیر کسی اکثریت کے امتیاز کے ،پورے کرنے کے قابل ہوتا ہے ۔ خلافت کی تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔

   جب مسلمانوں کا مرکز مدینہ قحط کا شکار تھا تو   ولایہ مصر سے اس کے لئے خوراک کے قافلے بھجوائے جا رہے تھے۔اسی طرح خلافت میں بغداد، دمشق، بصرہ، بخارا، سمرقند، حلب،  نیشاپور، بلخ،  دلی سب ترقی کا سفر طے کر رہے تھے۔
اکثریت کو نوازنے والا اور اقلیتوں کو نظر انداز کر دینے والا  یہ جمہوریت  کا  نظام مشرق و مغرب میں اپنی تباہی لا چکا ہے لیکن مغربی استعمار تیسری دنیا کی دولت کے بل بوتے پر اپنی مصنوعی ترقی کو جمہوریت اور سرمایہ داریت کا کارنامہ قرار دیتا ہے اور مسلم دنیا میں بعض ذہنوں کو اس سے مرعوب کرتا ہے۔

  جمہوریت کا ہر روپ  پے در پے اپنی  عیوب  واضح کرتا جا رہا ہے، اور اس کے دفن کرنے کا وقت آ چکا ہے۔لہٰذا مسلمانوں کو  بلا تاخیر انسانوں  کے  بنائے ہوئے اس نظام کو چھوڑ کر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے  نازل کردہ نظام کو اپنانا  ہو گا ، نہیں تو ناکامی  مسلمانوں کا مقدر رہے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:
﴿فَإِمَّا يَأۡتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدٗى فَمَنِ ٱتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشۡقَىٰ وَمَنۡ أَعۡرَضَ عَن ذِكۡرِي فَإِنَّ لَهُۥ مَعِيشَةٗ ضَنكٗا وَنَحۡشُرُهُۥ يَوۡمَ ٱلۡقِيَٰمَةِ أَعۡمَىٰ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرۡتَنِيٓ أَعۡمَىٰ وَقَدۡ كُنتُ بَصِيرٗا قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتۡكَ ءَايَٰتُنَا فَنَسِيتَهَاۖ وَكَذَٰلِكَ ٱلۡيَوۡمَ تُنسَىٰ﴾ " پھر اگر میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف میں پڑے گا اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا  اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کے دن  ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے، وہ کہے گا میرے پروردگار تو نے مجھے اندھا کرکے کیوں اٹھایا، میں تو دیکھتا بھالتا تھا۔

اللہ فرمائے گا کہ ایسا ہی ہونا چاہیئے، تیرے پاس میری آیتیں آئیں تو تو نے ان کو بھلا دیا۔ اسی طرح آج ہم تجھ کو بھلا دیں گے۔"(سورۃ طٰہ : 123-126)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :