آزادی صحافت آج کی ضرورت

پیر 4 مئی 2020

Ghulam Asghar

غلام اصغر

انسان نے کب بولنا شروع کیا اور کب اظہار رائے کا آغاز کیا یہ ایک تاریخ ہے جس کے بہت سے عقدے ابھی نہاں خانوں میں بند ہیں۔ انسان ابھی ان اسرارورموز کی جستجومیں لگا ہے، لیکن ایک قابل غور بات یہ ہے کہ انسان نے بولنا اور لکھنا لکھانا تو جیسے تیسے سیکھا لیکن یہ زباں بندی کا آغاز کب سے ہوا اس کا اندازہ ہر کسی کوبخوبی ہے۔
حضرت انسان جب اس زمین پر وارد ہوا تو اس نے خاندان سے ابتدا کی پھر خاندان قبیلے اور پھر یہ قبیلے پوری دنیا میں پھیل گئے۔

جب یہ اکیلا تھا تو یہ خود ہی اپنا آقا و غلام تھا،لیکن جیسے ہی اس سے آگے بڑھا طاقت ور اور کمزور کی لڑائی شروع ہو گئی۔ عورت کمزور تھی اس کو دبا دیا گیا،الغرض اس طرح سے زباں بندی کا ایک نہ تھمنے والا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ جو آج تک کسی نہ کسی صورت جاری وساری ہے۔

(جاری ہے)


میں صحافت کی تاریخ میں نہیں جانا چاہتا کیو نکہ اس پہ اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ اس میں کچھ اور انڈیلنا پہلے مزے کو کرکرا کرنے والی بات ہے ،جب کسی نے پہلی بار کوئی حق بات کسی تیسرے بندے تک تحقیق کر کے پہنچائی ہو گی کہ جس کا معلوم ہونا سب کا حق بنتا تھا تو میرے خیال میں یہ صحافت کا آغاز تھا۔


انسان زمانوں کے در وا کرتا اور صدیوں کو روندتا ہوا بہت دور نکل آیا ہے لیکن صحافت نے اس کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھا اور سکھایا۔ آپ کسی بھی تاریخ کی کتاب کو اٹھا کر پڑھ لیں،آپ کو حکمران طبقے کی کہانیاں ملیں گی کیونکہ وہ سب کچھ درباری تھا۔لیکن جہاں کہیں بھی تاریخ کو صحافی نے بیان کیا تو اس نے اس وقت کو ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا۔

صحافت ایک ایسا آئینہ ہے کہ جو نہ صرف ہر چیز کا اصل چہرہ دکھاتا ہے بلکہ اس کے اندر پھیلے ہوئے اچھے برے رنگ سب کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں کر دیتا ہے۔
صحافتی تاریخ نے بہت اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں،پوری دنیا کی معلوم تاریخ کی ورق گردانی کر کے دیکھ لیں آپ کو جا بجا حق گوئی کی خاطر اپنی جان داؤ پر لگانے والے شعلہ جوالہ لوگ ملیں گے،چاہے یہ آزادی کی تحریکیں ہوں یا جنگیں صحافت آپ کو ہر جگہ سرخرو ہوتی نظر آئے گی۔


 لیکن یہی چیزیں آزادی صحافت کے ان امین متوالوں کی قتل گاہیں بھی بنیں،یہ کلمہ حق کا نعرہ بلند کرنے والے صحافی گمنا م قاتلوں کی اندھی گولیوں کا نشانہ بھی بنے، پابندسلاسل بھی ہوئے، زندانوں کے اندھیروں میں بھی بھوکے پیاسے لیٹے رہے،انہیں سولی پر بھی چڑھایا گیا،لیکن یہ جانتے تھے کہ حق گوئی اپنا خراج تو وصول کرتی ہے نا۔
آج کا دور ایک دور فتن بھی ہے اور دور خود آگاہی بھی۔

سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہر چیز کو زیر و زبر کر دیا ہے۔ معلومات کے وسائل اور ان تک رسائی اتنی آسان اور تیز تر ہو گئی ہے کہ غلط اور صحیح کی پہچان مشکل ہو گئی ہے۔ اس صورت میں آزادی صحافت کی اہمیت میں بے پناہ ا ضافہ ہوا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ یہ دور خود آگاہی بھی ہے،ایسے میں ہر انسان معلومات کا حصول چاہتا ہے اور یہ ایک طرح کی بھوک ہے اور درست معلومات کا حصول اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔


آج کی دنیا میں آزادی صحافت پر سب سے زیا دہ قدغنیں لگ رہی ہیں۔ آپ پسماندہ مما لک سے لے کر ترقی یافتہ ممالک تک چلے جائیں آپ کو ہر جگہ ایسی نادیدہ طاقتیں نظرآئیں گی کہ جو اس ایسے آلے کو کہ جو عوام اور حکومت کے درمیان صحیح معلومات پہنچانے کا ایک پل ہے کوکنٹرول کرنے کی کوشش میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہوتی ہیں، دھونس، دھمکی، لالچ، بلیک میلنگ غرض ہر اوچھا ہتھکنڈہ اور اگر پھر بھی کنٹرول نہ کر پائیں تو اس پل پر کچھ لوگ اپنی مرضی کی ٹریفک بھی چلانے کی سعی کرتے ہیں، یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے بندر کے ہاتھ میں استرا تھما دیا جائے اور اسی استرے کی وجہ سے آج معاشرے کا حال آپ کے سامنے ہے۔


3 مئی آزادی صحافت کا دن ہے۔ اگر دیکھا جائے تو صحافت کی آزادی کی ضرورت جتنی آج ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔ آج دنیا کا چپہ چپہ کئی طرح کے مسائل کی دلدل میں گلے تک دھنسا ہوا ہے۔ اتنا تعفن ہے کہ سانس لینا دشوار ہو رہا ہے۔ کہیں دہشتگردی ہے تو کہیں جنگ ہے کہیں بیماری نے پنجے گاڑ رکھے ہیں تو کہیں بھوک اپنا بھیانک ناچ ناچ رہی ہے۔ کہیں حکومتوں نے پوری پوری ریاستوں کو جیل بنا دیا ہے۔

جن میں کشمیر اور فلسطین سرفہرست ہیں۔ حکومتیں تو جس طرح چلنی ہیں وہ ویسے ہی چلتی رہیں گی، حکومتوں کے اے ناخداؤ صرف اتنا کر دو کہ صحافت کو آزادی کی سانس لے لینے دو، کم ازکم یہ عوام کے شعور کی آنکھ کھولے رکھے گی۔ اگرصحافت سے یہ آزادی بھی چھین لی گئی توانتشار پھلتے پھولتے معاشروں کا مقدر ٹھہرے گا۔ صحافت کی آزادی ہی معاشرے کی بقا ء کا دوسرا نام ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :