شام اور مسلم یونین

جمعہ 11 اپریل 2014

Ghulam Nabi Madni

غلام نبی مدنی۔ مکتوبِ مدینہ منورہ

شام مشرق وسطیٰ کاایک قدیم اسلامی ملک ہے۔اس کا سرکاری نام الجمہوریة العربیہ السوریہ ہے۔اس کے شمال میں ترکی ،مغرب میں بحیرہ روم اور لبنان،جنوب میں فلسطین اور اردن واقع ہیں،جبکہ مشرق میں عراق واقع ہے۔شام کا کل رقبہ۱۸۵۱۸۰مربع کلو میڑ ہے۔شام کی کل آبادی دو کروڑ سے زائد ہے۔تاریخی اعتبار سے شام ایک قدیم تہذیبی ثقافتی مرکز ہے۔

شام کو انبیاء کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔۶۳۶ء میں شام کو مسلمانوں نے فتح کیا ،۷۵۰ء تک اموی سلطنت قائم رہی بعدازاں عباسیوں نے سلطنت پر قبضہ کر کے دارالخلافہ دمشق سے بغداد منتقل کر لیا۔انیسویں صدی تک شام خلافت عثمانیہ کے زیر نگین رہا ۔پہلی جنگ عظیم کے بعد عالمی استعمار نے دیگر عرب ممالک کی طرح یہاں بھی اپنے جبرواستبداد اور مکر وفریب کا خوب بیج بویا۔

(جاری ہے)

۱۹۱۸ء میں فرانسیسیوں اور برطانوی سامراج نے مل کر یہاں حکومت قائم کی،جس پر کچھ عرصے بعد مکمل طور پر فرانس نے قبضہ کرلیا۔ تقریباً ۱۹۲۱ء میں شام کو عالمی استعمار نے مل کر چھ ریاستوں میں تقسیم کردیا۔جس کے بعد خانہ جنگیوں سے شام کے حالات ابتر ہوتے چلے گئے۔سترہ اپریل ۱۹۴۶ء تک شام میں سیاسی خلفشار رہا،فرانس سے آزادی کے لیے کبھی مذاکرات اور کبھی احتجاجی تحریکیں چلائی جاتی رہیں۔

بالآخر سترہ اپریل ۱۹۴۶ء کو شام کو فرانس سے مکمل آزادی ملی۔آزادی کے دن سے لے کر آج تک شام میں صحیح معنوں میں امن وسکون کی فضاء قائم نہ ہوسکی۔کبھی مصر، کبھی اسرائیل اورکبھی لبنان کے ساتھ خانہ جنگی برپا ہوتی رہی۔۱۹۷۰ء سے ۲۰۰۰ء تک ڈکٹیڑ حافظ الاسد کا دور رہا۔اس دور میں عوام پر بے تحاشا ظلم کیا جاتارہا۔چنانچہ ۱۹۸۲ء میں حافظ الاسد کے بھائی رفات الاسد نے شام کے شہر حماة کا ستائیس دن تک محاصرہ کرکے چالیس ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا۔

یہ تاریخ میں کسی مسلمان ملک میں اب تک بیک وقت اتنے مسلمانوں کے قتل عام کی پہلی مثال تھی۔حافظ الاسد کی وفات کے بعد سن۲۰۰۰ء میں اس کے بیٹے بشارالاسد نے اقتدار پر قبضہ کیا جواب تک جاری ہے۔بشارالاسد نے بھی اپنے والد کی طرح عوام پر ظلم وستم ڈھائے،انسانی حقوق کی پامالی کی۔پس منظر کے طور پر یاد رہے کہ شام میں عرب مسلمان سنیوں کی تعد اد ۷۴ فیصد سے زائد ہے جبکہ شیعہ علوی ونصیری محض ۱۳ فیصد ہیں۔

یہ ایک المیہ ہے کہ گزشتہ بیالیس سال سے تیرہ فیصد اقلیت چوہتر فیصد مسلمانوں کی اکثریت پر زبردستی حکومت کر رہی ہے۔
دسمبر ۲۰۱۰ء میں عرب بہار کے اثرات تیونس ،مصر،الجزائر،لیبیا کے بعدشام میں بھی پہنچے۔چنانچہ ۲۰۱۱ء کے شروع میں شامی عوام نے بشار الاسدحکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع کیے۔یہ مظاہرے دیگر عرب ممالک کی طرح ظلم وستم اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کی وجہ سے شروع ہوئے۔

کیوں کہ شام میں ۱۹۶۲ء سے انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی تھی ۔شام میں انسانی حقوق کی پامالی کااندازہ ان قوانین سے لگایا جاسکتا ہے:(۱)شام میں پانچ آدمیوں سے زائد آدمی اکٹھے نہیں ہوسکتے ۔(۲)کرد شامی مسلمانوں کو اب تک شامی نیشنیلٹی نہیں دی گئی۔(۳)تقریباً بیالیس سال موجودہ حکومتی پارٹی یعنی ”بعث پارٹی“ بغیر الیکشن کے جبری طور پر برسراقتدار ہے۔

(۴)شام میں تنظیم سازی،آزادی اظہاررائے سمیت بعث پارٹی کے سوا تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی شام میں کی جارہی ہے۔ بے گناہ لوگوں کو زبردستی جیلوں میں قید رکھاجاتا ہے اور انہیں ٹارچر کیا جاتا ہے۔ ۲۰۱۱ء میں شامی عوام نے انہی مظالم اوربنیادی انسانی حقوق حاصل کر نے لیے پرامن احتجاج شروع کیا تھا۔

لیکن بشارالاسد حکومت نے بجائے انسانی حقوق کی فراہمی کے الٹا انسانوں کی کھوپڑیوں کی مینار کھڑے کردیے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ”گزشتہ تین سالوں میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد بے گناہ شامیوں کو قتل کیاگیا۔شام میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کوئی انسان قتل نہ کیا جاتاہو“۔
شام میں گزشتہ تین سالوں میں جس طرح بے دردی سے انسانیت کا قتل عام کیا جارہاہے اس پر عالمی امن کے ٹھیکداروں اور انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کی مجرمانہ خاموشی سے ان کے اصلی چہرے کھل کر سامنے آگئے ہیں۔

شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے کھلے عام استعمال سے دنیا میں ایٹمی توانائی کی حفاظت اور اس کے پرامن استعمال کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کے دوہرے رویے کا بھی پول کھل گیا ہے اور عراق کو محض ایٹمی ہتھیاروں کے شکوک کی بنا پرتہس نہس کرنے والو ں کی منافقت کا بھی پردہ چاک ہوگیا ہے۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ شام میں گزشتہ تین سالوں سے انسانیت کے قتل عام کو عالمی میڈیا خانہ جنگی قرارد ے رہا ہے،حالاں کہ دنیا جانتی ہے یہ خانہ جنگی نہیں بلکہ یک طرفہ طور پرعام انسانوں کا قتل عام ہے۔

سب سے زیادہ افسوس ان ستاون سے زائد اسلامی ممالک اور اسلامی ممالک کی نمائندگی کرنے والی بین الاقوامی تنظیم او آئی سی پر ہے جوباوجود ایک دین اور ایک نبی اور ایک اللہ کے پیروکار ہونے کے اس عالمی دہشت گردی کے خلاف اب تک کوئی موٴثر حکمت عملی اختیار نہیں کرسکے ۔
ظلم جہاں بھی ہو ظلم ظلم ہوتا ہے۔اقوام متحد ہ کے انسانی حقوق کے عالمی منشور کے مطابق دنیا میں تمام انسانوں کومساوی طور پر بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں۔

اس منشور کے دفعہ ۱ :کے مطابق” تمام انسان آزاداور حقوق وعزت کے اعتبار سے برابرپیداہوئے ہیں۔انہیں ضمیر اور عقل ودیعت ہوئی ہے اس لیے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کا سلوک کرنا چاہیے“۔دفعہ ۲ کے مطابق ”ہر شخص ان تمام آزادیوں کا مستحق ہے جو منشور میں بیان کیے گئے ،نسل ،رنگ،جنس زبان ،مذہب اور سیاسی تفریق کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا“۔

انسانی حقوق کے عالمی منشور بنانے والوں کی شام میں چالیس سال سے زائدعرصہ سے انسانی حقوق کی پامالی پر خاموشی جہاں ان کے بنائے ہوئے منشور کی صریح خلاف ورزی ہے وہیں ایک سنگین جرم بھی ہے ۔سوال یہ ہے دنیا میں شام کے مسلمانوں کی طرح اگرعیسائیوں کوبنیادی انسانی حقو ق سے محروم رکھا جاتا تو کیا انسانی حقوق کاعالمی منشور بنانے والے اس طرح خاموش بیٹھتے؟ نہیں !تو پھر مسلمانوں کے ساتھ یہ دوہرا رویہ کیوں اپنایا جارہاہے؟شام، مصر،فلسطین،افغانستان ،برمااور کشمیر میں بسنے والے مسلمان کیا انسان نہیں ہیں؟ ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے صرف اقوام متحدہ کے رسمی بیان اور مذمتی الفاظ رہ گئے ہیں۔

مسلمانوں کے حقو ق کے لیے جہاں عالمی منشور بنانے والوں کو برابری کی سطح پر کام کرنا چاہیے وہیں خود مسلمانوں کوبھی اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے مشترکہ طور پرایک آزاد اور مضبوط پلیٹ فارم بنانا چاہیے، جو ہر لحاظ سے مضبوط اور آزاد ہو،جواوآئی سی کی طرح محض رسمی اجلاس اور قراردادیں جارے کرے ،نہ اغیار کے ساتھ مصلحت کے نام پر مسلمانوں کے خون کا سودا کرے،بلکہ آزادانہ طور پر عالمی برادری میں مسلمانوں کے تشخص اور حقوق کی جنگ لڑے۔

مسلمانوں کے لیے یہ کتنی عار کی بات ہے کہ غیرمسلم اپنے مفادات کے لیے یورپی یونین،افریقی یونین اورجی سیون، جیسی تنظیمیں بنا سکتے ہیں لیکن مسلمان اپنے لیے ایک مسلم یونین نہیں بناسکتے۔دنیا میں اپنی شنا خت باقی رکھنے کے لیے مسلم یونین کا قیام ناگزیرہے،ورنہ یکے بعد دیگرے ہر ملک شام ،عراق،فلسطین ،مصر ،برما اورکشمیرکی طرح مسلمانوں کی مقتل گاہ بنتا رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :