ترکی امریکا منحوس معاہدہ اور طالبان کا اعلامیہ ؟

بدھ 14 جولائی 2021

Ghulam Nabi Madni

غلام نبی مدنی۔ مکتوبِ مدینہ منورہ

افغانستان میں افغان طالبان کی فتوحات کا سلسلہ تیزی سے بڑھتا جارہاہے۔گزشتہ 8ہفتوں کے دوران  افغانستان کے 421 اضلاع میں سے 170 سے زائد اضلاع پر طالبان کا کنٹرول ہوچکاہے۔افغانستان کے 34 صوبوں میں سے کوئی صوبہ ایسا نہیں ہے جہاں افغان طالبان کی موجودگی نہ ہو۔شمالی افغانستان کے صوبے اور اضلاع جہاں طالبان کے مخالفین نے کبھی طالبان کو پنجے نہیں گاڑنے دیے وہ بھی طالبان فتح کرچکے ہیں۔

بدخشان کے 28 اضلاع میں سے 25اضلاع پر طالبان کا قبضہ ہے،قندوز،تخار بھی طالبان کی گرفت  میں ہیں۔یہاں تک کہ بامیان صوبہ کے 8 میں سے 3اضلاع کو گزشتہ 2 روز میں طالبان فتح کرچکے ہیں جو شیعہ کمیونٹی  کی آبادی کا حامل صوبہ ہے اور اسے کابل حکومت کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ۔کابل صوبے کے 22اضلاع پر قبضے کے لیے طالبان کی پیش قدمی تیز ہوچکی ہے ،کابل صوبے کا سروبی ضلع طالبان نے مکمل قبضہ کرنے کا دعوی کیا ہے۔

(جاری ہے)

مغرب میں ایران سرحد سے متصل ہرات اور بادغیس صوبے پہلے ہی طالبان کی گرفت میں جاچکے ہیں،جنوب میں ہلمند نیمروز پر قبضہ مکمل ہونے کے قریب ہے ،غزنی قندھار  غور دائی کنڈی خوست جیسے صوبے بھی میدان جنگ بنے ہوئے ہیں۔افغان طالبان کے دعوہ کمیشن کے سربراہ مولوی امیر خان متقی نے تازہ بیان دیا ہے کہ افغانستان کے بڑے صوبوں کو ہم حکمت عملی کے ذریعے فتح کریں گے یہاں جنگ کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔

افغان طالبان حالیہ فتوحات کو فتح مکہ اور بد ر کی فتوحات سے موسوم کررہے ہیں کہ بغیر لڑائی کے ہزاروں کابل فوجی ہتھیار ڈال کر سرنڈر ہوچکے ہیں جو ان کی اکیسویں صدی میں ایک بڑی فتح اور معجزہ  ہے جس میں یقینا اللہ تعالی کی مدد  ہی کارفرما رہی ہے۔
ایک طرف افغان طالبان افغانستان میں افغان طالبان کنٹرول حاصل کررہے ہیں تو دوسری طرف پڑوسی ملک  ایران تاجکستان ترکمانستان روس چین اور پاکستان افغان طالبان سے رابطے تیز کررہے ہیں۔

افغان طالبان کو روس ایران ترکمانستان نے  سرکاری طور پر مدعو کرکے اہم معاہدے کرلیے ہیں جس پر کابل حکومت کو شدید اعتراض ہے ۔کابل حکومت نے ترکمانستان کو وارننگ جاری کی ہے کہ ان کی اجازت کے بغیر طالبان کو دعوت دینا سفارتی تعلقات کے منافی ہے۔جب کہ پڑوسی ملک یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ مستقبل میں طالبان کی حکومت آرہی ہے جن سے معاہدے کرکے سرحدیں محفوظ کرنا ضروری ہے۔

ادھر امریکا نیٹو بھی جاتے جاتے افغانستان میں خانہ جنگی کے لیے محاذ گرم کیے ہوئے ہے۔امریکا نے طالبان حکومت روکنے کے لیے ترکی سے ایک معاہدہ کیا ہے ،جس کی رو سے ترکی کابل ائیرپورٹ کی سیکورٹی سمیت کابل میں غیرملکی سفارتی مشنز کو سیکورٹی فراہم کرے گا۔طالبان نے  اس معاہدے کو منحوس معاہدہ قراردیتے ہوئے سخت ترین اعلامیہ جاری کیا ہے جو ترکی کے خلاف پہلا اعلامیہ ہے  جو 8 نکات  پر مشتمل ہے۔

جس کی تمہید میں بتایا گیا ہے کہ "سب کو معلوم ہے کہ دوحہ معاہدے کی بنیاد پر وطن عزیز سے تمام بیرونی افواج کے انخلا کا فیصلہ ہوا ہے، اقوام متحدہ اور دنیا نے توثیق کی ہے،معاہدے  پر دستخط  کی تقریب کے وقت ترک وزیرخارجہ سمیت اکثر ممالک نے فیصلے کی حمایت اور خیرمقدم کیا۔چونکہ اب ترکی کے حکمرانوں نے امریکی مطالبے اور فیصلے  پر ہمارے ملک میں اپنی افواج کی تعیناتی اور جارحیت کے تسلسل کا اعلان کیا،اس سے حوالے سے درج ذیل نکات قابل توجہ ہیں۔


1-  ترک مسلمان عوام کے ساتھ امارت اسلامیہ افغانستان اور افغان قوم کے تاریخی، ثقافتی اور مذہبی روابط ہیں، جارحیت جاری رکھنے سے ترک حکمرانوں کے بارے میں ہمارے ملک میں نفرت اور دشمنی  کے جذبات بھڑکیں گے جس سے دو طرفہ تعلقات کو نقصان پہنچے گا۔
2- ترک حکام کا یہ فیصلہ ایک غیرسنجیدہ اقدام ہے اور ہماری قوم ، ملک کی خودمختاری، علاقائی سلامتی اور قومی مفادات کےمنافی عمل ہے، امارت اسلامیہ افغانستان اس منحوس فیصلے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔

کیونکہ اس طرح فیصلے ترک اور افغان اقوام کے درمیان مسائل اور مشکلات کو جنم دیتے ہیں، ہم ترک حکام سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں، کہ فیصلے کو واپس لے،کیونکہ دونوں ممالک کے نقصان میں ہے۔
3- ہمارے  ملک میں غیرملکی افواج کی موجودگی چاہے کسی بھی ملک اور نام سے ہو، وہ جارحیت ہے اور غیرملکی قبضے اور جارحیت کرنے والوں کے خلاف افغانستان کے پندرہ سو علماء کرام کے اس فتوی کی بنیاد پر سلوک کیا جائےگا، جسے ۱۴۲۲ھ ق بمطابق ۲۰۰۱ء میں جاری کیا  گیا تھا۔

جس فتوی رو  سے گذشتہ ۲۰ سالوں سے جہاد جاری ہے۔
4-  ہم ترک مسلمان قوم اور دانشمند سیاستدانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس فیصلے کے بابت اپنی آواز بلند کریں،کیونکہ یہ فیصلہ ترکی اور افغانستان کسی کے مفاد میں نہیں ہے،بلکہ دونوں مسلمان اقوام کے درمیان مسائل اور مشکلات کا سبب ہے۔
5- ہماری پالیسی یہ ہے کہ تمام ممالک کے ساتھ باہمی تعاون کی بنیاد پر بہتر اور مثبت تعلقات قائم ہوں، کسی کے امور میں ہم مداخلت کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کو ہمارے امور میں  مداخلت کی اجازت دیتے ہیں۔


6- ہم ترک حکام کو بتاتے ہیں کہ اس طرح غیرسنجیدہ فیصلے کی بجائے بہتر یہ ہے کہ تسلیم شدہ اصولوں کی روشنی میں ایک دوسرے کے ساتھ مثبت اور خوشگوار تعلقات استوار کریں، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں، مشترکہ مسائل اور مفادات کے بارے میں ہمارا سوچ اور مؤقف مشترک ہو۔
7- ہم کافی عرصے سے ترک حکام سے رابطے میں رہے ہیں، ہمارے درمیان متعدد ملاقاتیں ہوئیں، انہوں نے ہمیں یقین دلایا کہ  وہ ہماری رضامندی کے بغیر خود ایسا  کوئی فیصلہ نہیں کریں گے جو طالبان کو منظور نہ ہو۔

چونکہ اب ترکی نے یہ فیصلہ کیا اور امریکا سے معاہدہ کرلیا ہے تو یہ ان کے وعدے  کےمنافی عمل ہے۔
8-  اگر ترک حکام اس بارے میں نظرثانی نہیں کریں گے اور ہمارے ملک میں  جارحیت جاری رکھیں گے،  تو امارت اسلامیہ اور افغان قوم اپنے ایمانی اور قومی ذمہ داری کی رو سے اس کے خلاف اس طرح ڈٹ جائے گی جس طرح 20سال سے جارحیت کے مقابلہ کیا جارہاہے۔

یوں نتائج کی ذمہ داری ترکی پر عائد ہوگی، جس نے دوسروں کے امور میں مداخلت کرکے اس طرح  کاغیرسنجیدہ فیصلہ کیا"۔
ترکی اور امریکا کے منحوس معاہدے کے خلاف طالبان کا یہ 8 نکاتی اعلامیہ 5زبانوں میں جاری کیا گیا ہے جو دنیا بھر کے میڈیا پر نشر ہورہاہے۔یقینا یہ ایک سخت اعلامیہ ہے ۔ترکی شاید غرور تکبر کا شکار ہوگیا ہے۔ امریکا کے ساتھ طالبان کے خلاف معاہدہ ترکی اور امت مسلمہ میں تقسیم کا باعث ہے۔

اردگان نے 20 سال کی محنت سے جو عزت بنائی وہ خاک میں مل جائے گی۔امت مسلمہ کےہاں ترکی کے بارے جو ہمدردیاں ہیں وہ ختم ہوجائیں گی۔ اردگان کایہ فیصلہ ترکی کے دشمنوں کو خوش کرے گا۔ترکی امریکا کے طالبان مخالف منحوس معاہدے سے قوم پرستی اور وطن پرستی کی بدبو آ رہی ہے۔ کیا قوم پرستی کے نام پر اردگان خلافت عثمانیہ کی بحالی کے خواب دیکھ رہےہیں؟ کیا محض اس وجہ سے کہ دنیا میں مسلمانوں کا سب سے بڑا لیڈر ترکی اور اردگان کہلائے طالبان اور افغانستان کی عوام کی دشمنی اردگان مول لے رہے ہیں؟ سچی بات یہ ہے کہ ‏ترکی کا اردگان ہی نہیں، پوری دنیا افغان طالبان کی حکومت بحالی سے سہمی ہوئی ہے اور خوفزدہ ہے ۔

انہیں ڈرہے کہ طالبان نے اگر اسلامی آئیڈیل حکومت بحال کردی تو ان کا اقتدار اور کرسی چلے جائی گی طالبان آئیڈل حکومت کامطالبہ ان کے ملکوں میں زورپکڑےگااس لیے وہ طالبان کو روکنے کے لیے زور لگا رہے ہیں۔بعض خوش فہم یہ تاویل کررہے ہیں کہ اردگان اور ترکی کی یہ ایک چال ہے امریکا نیٹو کو افغانستان سے نکالنے کی، یہ خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اردگان اس طرح کی چال پچھلے 20 سالوں میں کیوں نہیں چل سکا؟ کیوں بدنام زمانہ مجرم جنرل دوستم کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے؟ کیوں اشرف غنی کے ساتھ بارہا معاہدے کررکھے ہیں کیوں نیٹو کی فوج کے ساتھ مل کر 20 سال سے افغانستان میں موجود ہے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :