افغانستان کشمیر امریکا اسرائیل بھارت اور پاکستان؟

منگل 27 اگست 2019

Ghulam Nabi Madni

غلام نبی مدنی۔ مکتوبِ مدینہ منورہ

افغانستان کی جنگ کو 18 سال کا عرصہ ہوچکاہے۔لاکھوں افغان قتل کیے  گئے،لاکھوں کو افغانستان چھوڑنے پر مجبور کیاگیا،زخمیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔شاید ہی کوئی دن ہو جب افغانستان میں کوئی دھماکہ نہ ہوتا ہو۔اِن 18سالوں  میں افغانستان کی تباہی کا ذمہ دار امریکا اور اس کے حواری ہیں۔گزشتہ 2 سال سے متواتر خبریں سامنے آرہی ہیں کہ امریکا افغانستان سے انخلاء چاہتاہے۔

امریکی صدر ٹرمپ  امریکی تاریخ کی سب سے طویل اور مہنگی جنگ سے تنگ آچکے ہیں اور وہ افغانستان سے نکلناچاہتے ہیں تاکہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرسکیں۔ایک بات تو یقینی ہے کہ ٹرمپ دوبارہ صدر بن جائیں گے اور دوسری بات بھی یقینی ہے کہ ٹرمپ امریکا سے مکمل انخلاء کبھی نہیں کریں گے۔

(جاری ہے)

اس کے لیے کچھ قرائن پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا   نواں دور دوحاقطر میں شروع ہوچکاہے۔

ادھروائٹ ہاؤس میں امریکی صدر سے صحافی سوال کرتے ہیں کہ "کیا آپ کو طالبان پر اعتماد ہے؟" امریکی صدر نے کہا کسی پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا،افغانستان دہشت گردوں کی ہاورڈ یونیورسٹی ہے،وہ چاہیں تو غیر جوہری بموں سے دہشت گردوں کا خاتمہ کرسکتے ہیں،لیکن اس میں ڈیڑھ کروڑ افغان مارے جائیں گے،ہم نے اتنا پیسہ وہاں خرچ کیا ہم نہیں چاہیں گے کہ اپنے فوجی اڈے ختم کریں اور انٹیلی جنس عملے کو وہاں سے نکالیں تاکہ نائن الیون کی طرح پھر سے امریکا پر کوئی حملہ ہو۔

انہوں نے کہاافغانستان میں داعش سر پکڑ رہے ہیں،اس کے خلاف لڑنا ہوگا،پاکستان  بھارت اور دیگر ملکوں کو بھی کام کرنا ہوگا"۔یہ امریکی صدر کی تازہ گفتگو ہے،آپ اس سے  اندازہ لگائیں کہ امریکی صدر افغانستان کے بارے کیا رائے رکھتے ہیں۔افغانستان میں امریکا کے تقریباً6بڑےفوجی اڈے ہیں جو اربوں ڈالر لگا کر تعمیر کیے گئے ہیں۔2001 سے اب تک امریکا افغانستان کی جنگ میں 975ارب ڈالر سے زائد خرچ کرچکاہے،ہزاروں امریکی مارے گئے ،ہزاروں زخمی ہوئے۔

امریکا کبھی نہیں چاہے گا کہ ان فوجی اڈوں کو افغان طالبان کے حوالے کیا جائے۔افغانستان  سے امریکا فوری اس لیے بھی نہیں نکلنا چاہتا کیوں کہ خطے میں چین اور روس کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے امریکا کو پریشانی لاحق ہے،سی پیک  منصوبہ،روس کے ایران  اور بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات،چین کی ملائیشیا،انڈونیشا تھائی لینڈ،نیپال  اور سنگاپور میں اجارہ داری یہ سب وہ چیزیں جو خطے میں امریکا کی پوزیشن کمزور کررہی ہیں۔

امریکا یہ چاہتاہے کہ وہ  افغانستان میں رہ کر ان دونو ں حریفوں  کا مقابلہ کرے۔
جہاں تک کشمیر  پر حالیہ کشیدگی کا تعلق ہے،تو یہ بھی امریکا بھارت اسرائیل تین ملکوں کی ٹرائیکا کی ملی بھگت ہے۔اس کے پس منظر کے لیے  اسرائیل اور فلسطین کے درمیان 70سالہ تنازعے کو ختم کروانے کے لیے دو سال سے جاری "ٹرمپ امن پلان"یعنی "صدی کی بڑی ڈیل"پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کوشنر  جو ٹرمپ کے سینئر مشیر بھی ہیں اور ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ  امور کے مشیر جیسن گرین بیلٹ گزشتہ دو سال سے "صدی کی بڑی ڈیل "نامی ایک منصوبے پر کام کررہے ہیں  جس کے لیے وہ فلسطین اسرائیل  اردن لبنان مصر سعودی عرب قطر بحرین متحدہ عرب امارات کویت  وغیرہ کے کئی دورے کرچکے ہیں۔اس منصوبے کی مکمل تفصیلات تاحال سامنے نہیں آئیں،امریکی انتظامیہ کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ اسرائیل میں ہونے والے حالیہ انتخابات کے بعد اس منصوبے کا باقاعدہ اعلان کیا جائے گا۔

اس منصوبے کی ابتدائی معلومات جو عالمی میڈیا پر سامنے آئی ہیں اس کے مطابق یہ منصوبہ 2 سے تین مراحل میں مکمل کیا جائے گا۔ایک مرحلہ فلسطین اور اس کے معاون ملکوں کی معاشی مدد کرنا ہے جس کے لیے 50 ارب ڈالر کی رقم مختص کی گئی ہے جو امریکا یورپ اسرائیل اور خلیجی ممالک سے لی جائے گی،اس میں سے 25 ارب ڈالر فلسطین  پر خرچ کیے جائیں گے،غزہ کو مغربی کنارے سے جوڑنے کے لیے طویل ترین پل بنایا جائے گا،باقی انفراسٹراکچر  پر پیسہ خرچ ہوگا۔

باقی کے 25ارب ڈالر  اردن لبنان مصر میں تقسیم کیے جائیں گے   کیوں کہ ان ممالک کو مجبور کیا جارہاہے کہ وہ اپنے کچھ علاقوں میں فلسطینیوں کو رہنے کی اجازت دیں۔اس منصوبے کادوسرامرحلہ فلسطین اور اسرائیل کی جغرافیائی حیثیت کو تبدیل کرنے سے متعلق ہے،یعنی فلسطین کے کچھ علاقے اسرائیل کےاور اسرائیل کے کچھ علاقے فلسطین کے حوالے کرنا ہے۔

اس میں جو خوفناک پہلو نظر آرہاہے وہ یہ  ہے کہ بیت المقدس  شہر  کو جہاں مسجد اقصیٰ اور دیگر مقدسات موجود ہیں عملاً  اسے اسرائیل کے حوالے کیا جائے اور بیت المقدس سے چندکلومیٹر کے فاصلے پر واقع ابوعدیس نامی علاقہ  فلسطین کادارالخلافہ بنایا جائے۔اس کے علاوہ مصر اور اردن سے کچھ علاقے  لے کر فلسطینیوں کو وہاں بسایا جائے جیسے صحرائے سینا کا وہ حصہ جو مصر کے کنٹرول میں ہے وہاں پر فلسطینیوں کی بستیاں بسائی جائیں۔

اس منصوبے کے تحت دنیا بھر میں جہاں کہیں فلسطینی مہاجر ہیں ان کی واپسی کے لیے دروازے ہمیشہ بند کردیے جائیں  اور ان کی واپسی کو غیر قانونی قراردیدیا جائے۔یہاں  پر اسرائیل کا ایک اور بھیانک منصوبہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ غزہ پر اسرائیل کی جانب سے مسلسل حملے کیے جارہے ہیں تاکہ وہاں کے لوگوں کو غزہ چھوڑنے پر مجبور کیا جائے،اسرائیلی انتظامیہ کے ایک سینئرافسر کے مطابق اسرائیل نے سال 2018 میں 60 ہزار سے زائد غزہ کے باسیوں کو غزہ چھوڑنے پر مجبور کیا،اس کے لیے غزہ کے لوگوں کو اسرائیل کے ائیرپورٹس تک استعمال کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔

غزہ میں  18سے 19لاکھ فلسطینی آباد ہیں  اگر یہ لوگ آہستہ آہستہ غزہ سے نکل گئے تو اسرائیل کے لیے قبضہ کرنا آسان ہوجائے گا۔بہرحال صدی کی بڑی ڈیل نامی منصوبے کے حوالے اسرائیل نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ اگر ان کے مقبوضہ علاقوں کو جہاں پر یہودی آباد ہیں فلسطین کے حوالے کیا گیا تو وہ اس ڈیل کو قبول نہیں کریں گے۔لیکن ابتداًدنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر امریکا کی آشیر باد سے اسرائیل اس ڈیل کو قبول کرلے گا۔


صدی کی اس بڑی ڈیل کو کامیاب بنانے کے لیے امریکا اور اسرائیل کی جانب سے اسلامی دنیا کو مشغول کرنے کے لیے مختلف حربے آزمائے جارہے ہیں اس کے لیے سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی،یمن میں عرب اتحاد  کے درمیان اختلافات کو ہوا دے کر علیحدگی اور پھر یمن کی تقسیم،افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ کو طول دینا اوراس کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر اس قدر کشیدگی کہ جنگ تک کروانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

27فروری 2019 کو بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف جو جارحیت مسلط کرنے کی کوشش کی گئی اس میں بھی اسرائیل کاپورا تعاون بھارت کو حاصل تھا۔آرٹیکل 370کے خاتمے کے لیے بھی اسرائیل ہی نے بھارت کو تھپکی دی ہے۔مودی کے گزشتہ دور حکومت کے آخری دوسالوں میں اس پر کام تیز ہوا جب سے ٹرمپ نے صدی کی بڑی ڈیل پر کام شروع کروایا۔آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد مودی نیتن یاہو کی طرح کشمیر میں ہندوآباد کاری چاہتاہے،اس کے لیے وہی حربے آزمائے جارہے ہیں جو غاصب اسرائیلی یہودیوں نے فلسطینیوں کے خلاف آزمائے۔

اس کے ساتھ ساتھ امریکا اوراسرائیل کے پیش نظر یہ منصوبہ بھی ہے کہ پہلے صدی کی بڑی ڈیل کو کامیاب بنایا جائے اور پھر کشمیر کے معاملے پر اسی نوعیت کا منصوبہ لایا جائے،جس کے لیے امریکی صدر باربار یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کروانا چاہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس ساری صورتحال میں ہمیں کیا کرناچاہیے؟اس میں کوئی شک نہیں   کہ یہودی اور عیسائی منصوبہ بندی میں بہت تیز ہیں،لیکن امت مسلمہ تب تک نہیں جاگتی جب تک پانی ان کے سروں تک نہ  پہنچ جائے۔

اسلامی دنیا کو باہمی اختلافات میں الجھا کر لڑوانے کی پالیسی عرب بہار  2011 سے مسلسل  تیز ہورہی ہے۔پہلے عربوں کو علیحدہ کیا گیا،پھر قطر سعودی عرب میں اختلافات کروائے گئے،اب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں اختلافات کی خبریں سامنے آرہی ہیں،ترکی اور خلیجی ممالک کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیاگیا ۔ہدف ان کا ایک ہے کہ جب تک یہ متحدہیں انہیں شکست نہیں دی جاسکتی،اس لیے ان سے لڑنے کے بجائے انہیں آپس میں لڑاؤ یااندرونی مسائل میں الجھاؤاور اپنے اہداف حاصل کرو۔

یہی وجہ ہے کہ آج ہراسلامی ملک اندرونی مسائل اور اختلافات میں الجھاہوا نظرآتاہے۔پاکستان کو بھی اس قدر اندرونی مسائل میں الجھادیاگیا ہے  تاکہ وہ اپنے سوا کسی اور کی فکر نہ کرسکے۔اسرائیل یہ بات اچھی طرح جانتاہے کہ جب تک پاکستان موجود ہے،پاکستان کے ایٹمی اثاثے موجود ہیں ان کے منصوبے کامیاب ہوسکتے ہیں،نہ دنیا پریہودیوں کی عالمی حکومت قائم ہوسکتی ہے۔اس لیے پوری منصوبہ بندی سے پاکستان کو گھیرا جارہاہے،لیکن ایمان  اتحاد دعوت جہاد کے جذبے سے یہودوہنود اور نصاریٰ کے ان منصوبوں کو شکست دی جاسکتی ہے،جیسے افغان طالبان نے امریکا اورحواریوں کو دی!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :