نیتن یاہو کا دورہ بھارت اور پاکستان؟

پیر 2 ستمبر 2019

Ghulam Nabi Madni

غلام نبی مدنی۔ مکتوبِ مدینہ منورہ

اسرائیل میں 17ستمبر کو انتخابات ہورہے ہیں،اس سے پہلے اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو 8 اور9ستمبر کو بھارت کا دورہ کررہے ہیں۔دو سال کے عرصے میں نیتن یاہو کا یہ دوسرا دورہ  بھارت ہے  اس دورے کے اہداف اور مقاصد کا جائزہ لینے سے قبل اسرائیل اور بھارت کے تعلقات پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔بھارت اور اسرائیل کی دوستی کا باقاعدہ آغاز 17ستمبر1950 ءسے ہوتا ہے ۔

1948میں فلسطین  کی سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کے فوری بعدبھارت نے اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کی  جس کی بڑی وجہ بھارت  کے عرب ملکوں کے ساتھ مفادات  تھے اور خود بھارت کی آزادی کو اس وقت بمشکل 2 سال ہوئے تھے،تاہم نرم گوشہ  اسرائیل کے قیام سے ہندو لیڈروں میں پیدا ہوچکا تھا۔اسرائیل کو تسلیم کرتے وقت  ہندوستان کے وزیراعظم جواہر لال نہر و نے کہا "ہمیں بہت پہلے اسرائیل کو تسلیم کرلینا تھا،لیکن اپنے عرب  دوستوں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہچانے  کی وجہ سے ہم  نے اتنے عرصے تک اسرائیل کو تسلیم نہ کیا،تاہم اب اسرائیل ایک حقیقت ہے اس لیے ہم اسے تسلیم کررہے ہیں"۔

(جاری ہے)

1953ء میں  اسرائیل نے ممبئی میں اپنا  قونصل خانہ کھولا ۔1950سے 1990 تک دونوں ملکوں کے تعلقات روایتی طرز کے ساتھ چلتے رہے۔ 1965 اور 1971 کی پا ک بھارت جنگ میں  اسرائیل نے بھارت کی جاسوسی اور اسلحے کے ساتھ مدد کی۔دونوں کے تعلقات میں اس وقت اضافہ ہوا جب جنوری 1992میں بھارت نے تل ابیب میں اپنا سفارتخانہ کھولا۔یہی وہ وقت تھا جب کشمیر میں آزادی کی تحریک عروج پر تھی۔


1997ء میں اسرائیل کے ساتویں صدر عیزوایزمان پہلے اسرائیلی صدر تھے جنہوں نے بھارت کا دورہ کیا اور انڈیا کے ساتھ اسلحے کی بہت بڑی ڈیل کی۔ اس کے بعد 1999ء میں کارگل جنگ کے موقع اسرائیل نے کھل کر بھارت کی حمایت اور مدد کی، جس کا اقرار 2008ء میں اسرائیلی سفیر نے بھی کیا۔ 2003ء میں اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون بھارت کا دورہ کرنے والے پہلے اسرائیلی وزیراعظم تھے اس وقت  بھارتیہ جنتا پارٹی  نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے ساتھ حکومت میں تھی ،دیگر حکومتی پارٹیوں کی بنسبت بی جے پی نے ایریل شیرون کا خوب استقبال کیا۔

2005ء میں انڈیا نے 220 ملین ڈالر کے 50 ڈرون طیارے اسرائیل سے خریدے۔ 2007ء میں بھارت نے اسرائیل سےڈھائی بلین ڈالر کے عوض اینٹی میزائل سسٹم بھی خریدا۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را بھی شروع سے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتی ہے۔ 1968ء میں جب را کو بنایا گیا تو اس کے پہلے ڈائریکٹر R.N Kao نے بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کو مشورہ دیا کہ پاکستان اور چائنا کے خلاف کام کرنے کے لیے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ تعلقات بنانا بہت ضروری ہے۔

90 کی دہائی میں پاکستان نے را اور موساد کے پاکستان مخالف خفیہ تعلقات پر اس وقت آواز اٹھائی جب سیاحت کے نام پر دو اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے اہلکار مقبوضہ کشمیر میں آئے، ان میں سے ایک کو کشمیری مسلمانوں نے مار دیا اور ایک کو اغوا کر لیا تھا۔ ٹائمزآف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق 1999 سے 2009 تک بھارت نے اسرائیل سے 9 ارب ڈالر سے زائد کا اسلحہ خریدا۔

تازہ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کا سب سے زیادہ اسلحہ بھارت خریدتاہے ،روس کا بعد اسرائیل دوسرا بڑا ملک ہے جس سے بھارت اسلحہ خریدتاہے۔
بھارت اور اسرائیل تعلقات کا نیا دور 2014سے شروع ہوا جب اسرائیل میں شدت پسند یہودی نیتن یاہو کی طرح بھارت   کے اقتدار پر ہندو انتہاپسند مودی نے  قبضہ جمایا۔مودی نے اپنے نظریات کی کامیابی  کے لیے اسرائیل سے مدد طلب کی۔

2017 میں مودی کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دورے کی دعوت دی۔یوں مودی اسرائیل کا دورہ کرنے والا پہلا بھارتی وزیراعظم بنا۔مودی کے دورہ اسرائیل کے جواب میں نیتن یاہو نے 2018 میں بھارت کا دورہ کیا۔مودی اور نیتن یاہو کے دوروں کے بعد بھارت کی پاکستان مخالف جارحانہ پالیسیوں میں تیزی سے تبدیلیاں آئیں۔اس کی وجہ اسرائیل کی وہ تھپکی تھی جو مودی کو دی گئی۔

یہی وجہ ہے کہ آرٹیکل 370 اور 35اے  کے خاتمے کا منصوبہ بھی مودی کے دورہ اسرائیل کے بعد شروع ہوا۔پھر پلوامہ حملے کے بعد پاکستان کے خلاف بھارت  نے جارحیت کی کوشش کی تو اس میں بھی خبریں یہ آتی  رہیں کہ اسرائیل بھی اس میں شریک تھا۔نیتن یاہو اور مودی کے نظریات اور پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو دونوں انتہاپسندانہ نظریات کے حامل ہیں۔نتین یاہو اسرائیل کے طویل ترین وزیراعظم ہیں ان کے دور میں یہودی انتہاپسندی میں اضافہ ہوا،فلسطینیوں پر ظلم بڑھا،ان کی زمینوں پر  یہودی آباد کاری میں اضافہ ہوا،امریکا کے ساتھ مل کر نتین یاہو نے بیت المقدس کو عملا اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کروایا اور اب  ایک متنازعہ منصوبے "صدی کی بڑی ڈیل "کے ذریعے فلسطین کو خریدنے کےمنصوبے پر کامیابی سے نتین یاہو آگے بڑھ رہے ہیں۔

اسی طرح مودی کے گزشتہ پانچ سالہ دور میں بھی کشمیر کے اندر مظالم میں اضافہ ہوا،کشمیر کی مخصوص حیثیت ختم کرکے ہندو آباد کاری کے لیے راہیں ہموار کی گئیں اور گزشتہ 27دن  سے کشمیر یوں کو کرفیوں کے ذریعے محصور کرکے   مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔
 نیتن یاہو  کےحالیہ دورہ بھارت   کے کئی اہم مقاصد ہیں ان میں سے اہم مقصد آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد مودی حکومت کو جو مسائل درپیش ہیں ا ن میں مدد فراہم کرنا ہے۔

اگرچہ اس دورے  کو بظاہر تجارتی اور باہمی تعلقات کے استحکام کا نام دیا جارہاہے کہ اس میں  بھارت اور اسرائیل کے درمیان 500ملین ڈالرز سے زائد کے کئی اہم معاہدوں پر دستخط ہوں گے،بھارت اسرائیل سے سپائک میزائل اور دیگر اسلحہ خریدے گا۔اس کے علاوہ یہ بھی کہا جارہاہے کہ  اسرائیلی وزیراعظم بھارت میں رہنے والے 80ہزار یہودیوں سے ووٹ مانگنے  آرہے ہیں۔

لیکن یہ دورے کے محض ظاہری اسباب ہیں ،پس پردہ اسباب مودی کی پالیسیوں کو  کامیاب بنانے کے لیے غوروفکر کرنا اور مدد کرناہے۔اب خبریں یہ بھی سامنے آرہی ہیں کہ  اسرائیل بھارت میں باقاعدہ فوجی اڈے قائم کرنا چاہتاہے۔بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کی تاریخ  اور حالیہ بڑھتی ہوئی قربتوں سے یقیناً پاکستان کو باخبر اور متنبہ رہنے کی ضرورت ہے۔

کچھ لوگ پاکستان میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی باتیں کررہے ہیں جو پاکستان کے لیے قطعاً سود مند نہیں ہے۔اسرائیل پاکستان کو اپنی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتاہے،عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے  اسرائیلی جہازوں کو مار گرایا تھا۔اگرچہ عرب ممالک اب پس پردہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرچکے ہیں لیکن پاکستان کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

اس کی بہت ساری وجوہات ہیں سب سے بڑی وجہ جو اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں بیان کی کہ "یہودیوں کو دوست نہ بناؤ،یہ آپس میں (مسلمانوں کے خلاف) دوست ہیں"۔اسرائیل کی حالیہ 70سالہ اور ماضی کی تاریخ مسلمان دشمنی  کی ہے۔پھر پاکستان کا نظریاتی اساسی فریضہ بھی قبلہ اول کی حفاظت کرناہے۔فلسطینی آج بھی پاکستان پاک فوج کو اپنا سب سے بڑا ہمدرد سمجھتے ہیں ان کے حق میں بیت المقدس میں نعرے لگتے ہیں،اگر پاکستان اسرائیل کے بارے نرم گوشہ ہوجائے تو  یہ لاکھوں فلسطینیوں کی قربانیوں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔

اس کے علاوہ عرب ممالک تک اسرائیل کی وسعت  جیسے کے عراق شام میں اسرائیل کے حالیہ حملوں سے پاکستان کی اسٹرٹیجک ڈیپتھ متاثر ہورہی ہے جو پاکستان کی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔پھربھارت کے ساتھ اسرائیل  کے 70سالہ تعلقات بھی قطعا ًاسرائیل کو پاکستان کا خیرخواہ  بناسکتے ہیں،نہ کشمیر کی آزادی کے لیے اسرائیل   سے کوئی حمایت مل سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :