ستم در ستم

جمعہ 2 اکتوبر 2020

Hafiz Aman Ullah

حافظ امان اللہ

میں آج کی اس تحریر میں جس مسئلے کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا وہ ہے کسی حادثے کی صورت میں ہمارا ردعمل اور رویہ, جو دن بدن ایک المیہ بنتا جارہا ہے. حادثات زندگی کا حصہ ہیں اور ہر حساس آدمی کسی دوسرے کو تکلیف میں دیکھ کر بےچین ہوجاتا ہے اور جلدازجلد اس کی مدد کرنا چاہتا ہے,اس کی تکلیف دور کرنا چاہتا ہے.لیکن اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی کام کرنے کیلیے اس کے متعلق آگاہی ہونا بہت ضروری ہے.

اکثر ہم اپنی کم علمی کے باعث نقصان میں کمی کی بجائے اضافہ کربیٹھتے ہیں.

(جاری ہے)

اس لیے ہر انسان کو ہنگامی حالات میں کیے جانے والے اقدامات کے متعلق تربیت اور آگاہی ضرور ہونی چاہیے اور اگر آپ تربیت یافتہ نا بھی ہوں تو کم از کم اتنا دھیان ضرور رکھنا چاہیے کہ ہجوم اکٹھا نا ہو تاکہ امدادی ٹیموں کو کام کرنے میں مشکل نا ہو. ذمہ دار شہری ہونے کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ آپ دوسروں کی مشکلات میں اضافے کا باعث نا بنیں.
کسی بھی واقعہ کے متعلق "کیا ہوا, کیسے ہوا, کب ہوا" جیسے سوالات ہمارے ذہن میں آتے رہتے ہیں لیکن ان کے جوابات حاصل کرنے کیلیے اس قدر بےحس نہیں ہوجانا چاہیے کہ واقعہ کی سنگینی کا احساس ہی جاتا رہے.
ہمارے اس رویے میں کچھ حد تک قصور سوشل میڈیا کا بھی ہے.

وہاں کے سبسکرائبز , لائکس اور کمنٹس کو ہم نے اپنے سروں پر ایسے سوار کرلیا ہے کہ کسی بھی جھوٹی سچی خبر کو مرچ مصالحہ لگاکر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کردیتے ہیں اور اپنے ان مقاصد کو حاصل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں.کسی حادثہ کی صورت میں تو ہماری کم ظرفی امڈ کرسامنے آتی ہے اور ہم فورا موبائل نکال کرفلم بنانے لگتے ہیں. جب انسان خود غرضی کی اس حد تک پہنچ جاتا ہے تو اس کی حالت اس گِدھ جیسی ہوجاتی ہے جو شکار کی ہڈیوں تک سے گوشت نوچ نوچ کرکھاجاتا ہے.
اکثر ہم جانوروں کو بھی دیکھتے ہیں کہ جب ان کا کوئی ساتھی کسی حادثے میں مرجاتا ہے تو وہ باقاعدہ آہ و بقا کرتے نظر آتے ہیں.

اور کتوں کے متعلق تو مشہور ہے کہ وہ گاڑی کے پیچھے اس لیے بھاگتے اور بھونکتے ہیں کہ کہیں ماضی میں ان کا کوئی ساتھ کسی گاڑی کے نیچے آکر مرا ہوتا ہے. تو کیا ہم ان جانوروں سے بھی گئے گزرے ہیں کہ اپنے ہم جنس کی تکلیف کو محسوس کرنا تو دور الٹا اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں.
پچھلے دنوں موٹروے پر جو دلخراش سانحہ ہوا اس کے متعلق بھی ہمارا رویہ انتہائی قابل افسوس رہا.

ایسے واقعات قوموں کیلیے شرمندگی کا باعث ہوا کرتے ہیں. ایک عورت اندھیری رات میں بے یارومددگار تھی اور یقینا جنگلی درندوں سے خوفزدہ ہوگی کہ کوئی جانور آکر اسے یا اس کے بچوں کو نقصان نا پہنچادے لیکن ہوا یہ کہ اس کے اپنے ہم جنس, جنگلی درندوں سے بھی بدتر نکلے. جہاں عورت کی حفاظت کیلیے جانیں تک قربان کردی جاتی تھیں وہاں یہ وقت آگیا کہ درندگی کی انتہا کردی گئی.

پھر ستم در ستم ہماری وہی خود غرضی اور مفاد پرستی , طرح طرح کے اندازے,تجزیے اور قیاس آرائیاں. ہر قسم کی معلومات فورا سے پہلے سوشل میڈیا پر چڑھائی گئیں جس سے الٹا نقصان ہوا, مجرم چوکنے ہوگئے اور تادم تحریر پکڑ میں نہیں آپائے. اور اب تو میڈیا,سیاست دان اور تجزیہ کار وغیرہ بھی خاموش ہوچکے ہیں, شاید کسی کو اس کیس سے دلچسپی نہیں رہی. اب تو جیسے عادت سی ہوچکی ہے کہ کسی بھی حادثے پر ایک طوفان سا مچ جاتاہے, سیاست دانوں کو سیاست کا موقع ملتا ہے اور تجزیہ کاروں کو اپنی ریٹنگ بڑھانے کا.

پھر آہستہ آہستہ سب خاموش ہوجاتے ہیں اور واقعہ دب جاتا ہے لیکن کچھ عرصے بعد نئے کرداروں اور نئی کہانی کےساتھ پھر سے سامنے آجاتا ہے اور ہماری بےحسی کا ماتم کرنے لگتا ہے. نجانے کب تک ہم خودغرضی اور نااہلی کی اس روش پر قائم رہیں گے اور "ستم در ستم" کے اس گھٹیا رویے سے نقصان ہی نقصان اٹھاتے رہینگے. اللہ ہی ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہم سمجھ جائیں کہ مسائل ہیں کیا اور انہیں حل کیسے کرنا ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :