عدم برداشت،ایک بدنما داغ

بدھ 14 اکتوبر 2020

Hafiz Aman Ullah

حافظ امان اللہ

ہم سب ایک معاشرے کا حصہ ہیں,اس ناطے اس کی فکر کرنا ہماری ذمہ داری ہے. اچھائی اور برائی ہر جگہ موجود ہوتی ہے, اسی طرح ہمارے ہاں بھی دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں. اچھائی کا ذکر کریں تو ہمارے ہاں عورتوں اور بزرگوں کا احترام, ہمسائے سے بھائی جیسا تعلق, مصیبت میں ایک دوسرے کی بڑھ چڑھ کر مدد کرنے جیسی اور بھی بہت سی قابل فخر اچھائیاں پائی جاتی ہیں.

لیکن جس معاملے پر آج میں بات کرنا چاہتا ہوں وہ قابل فخر نہیں بلکہ قابل فکر ہے اور وہ ہے روز بروز بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور بدزبانی. کہتے ہیں کہ دل ایک دکان ہے جس کا تالا زبان ہے,جس کے کھلتے ہی اندازہ  ہوجاتا ہے کہ دکان کے اندر کس قسم کا مال رکھا ہوگا.

(جاری ہے)

بدزبانی انسان کی شخصیت پر ایک بدنما داغ کا مانند ہوتی ہے.
اکثر ایک بات سننے کو ملتی ہے کہ سچا آدمی بہت کڑوا اور منہ پھٹ ہوتا ہے لیکن ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ دنیا کی سب سے سچی شخصیت حضرت محمد ﷺ سب سے زیادہ خوش اخلاق بھی تھے.

اس کے بعد بھی  ہمارے پاس کیا جواز بچتا ہے کہ سچ کی آڑ میں کسی کو بےعزت کریں یا کسی کی دل آزاری کریں.
آج کل تحمل,بردباری یا اعلی ظرفی تو گزرے وقتوں کے قصوں, کہانیوں میں ہی ملتے ہیں. آج کے اس دور میں اینٹ کا جواب پتھر سے نا دینے والے کو بزدل سمجھا جاتا ہے. جبکہ ہماری تعلیمات میں واضح طور پر بتایاگیا ہے کہ بہادر وہ ہے جسے اپنے غصے پر قابو ہو.

لیکن پتہ نہیں کیوں آج کل بدزبانی اور ہاتھا پائی کو بہادری کانام دے دیا گیا ہے.
افراتفری کے اس دور میں ہرسمت مسائل کے انبار لگ چکے ہیں. لیکن جس راستے پر چل کر خیر اور کامیابی کا خزانہ مل سکتا ہے اس سے ہم دن بدن دور ہوتے جارہے ہیں.
ہمارے نبی اکرمﷺ کا اسوہ حسنہ بلاشبہ ایک نسخہءکیمیا ہے جس کے ذریعے آپﷺ نے سخت دل بدوؤں کو اس قدر نرم کردیا کہ وہ زمین پر چلتے ہوئے بھی اسی فکر میں رہتے کہ کہیں ان کا پاؤں کسی چیونٹی پر نا آجائے.
 آج مختلف زبانیں سیکھنے کا رجحان تو بہت بڑھ چکا ہے, اور لہجے بدل بدل کر بات کرنا فیشن کا حصہ بن چکا ہے لیکن دن بدن بڑھتی عدم برداشت اور بدزبانی پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی.

یہ وہ طوفان ہے جس نے ہماری اقدار کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیا ہے اور ہمارے معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے.
جدید دور میں ذرائع ابلاغ بہت عام ہوچکے ہیں. ٹی وی , موبائل وغیرہ چند لمحوں میں ادھر کی بات ادھر پہنچا دیتے ہیں. لیکن اگر ان کی حد بندی نا کی گئی تو خدانخواستہ حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے. ڈرامہ,فلم اور ٹاک شوز میں استعمال ہونے والے لہجے اور زبان کا معیار افسوسناک حد تک گر چکا ہے.

افسوس در افسوس آج کل کی سیاست بھی بدزبانی اور مخالفین کی کردار کشی تک ہی محدود ہوچکی ہے, ہمارے ہاں انتخابات جیتنے کا ایک کلیہ بن چکا ہے کہ مخالف کو بدنام کرو اور جیت جاؤ. اس لیے مخالف موصوف بھی کام سے زیادہ نام کی فکر میں رہتے ہیں, اگر کوئی کچھ کرتا بھی ہے تو صرف تشہیر کی خاطر, عوامی مسائل یا ان کے حل پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی.
ہم نے علم کا مطلب معلومات کو جمع کرنا اور سامنے والے کو لاجواب کردینا سمجھ لیا ہے, ہر جگہ عدالت لگا لیتے ہیں اور اپنے اپنے مؤقف کی وکالت کرنے لگ جاتے ہیں جبکہ علم حاصل کرنے کا اصل مقصد تو اپنی اور دوسروں کی بھلائی ہونا چاہیے.

مادہ پرستی کے اس دور میں تعلیم کے نام پر ہونے والے کھلواڑ پر کیوں نا رویا جائے جہاں بچوں کو یہ تک نہیں سکھایا جاتا کہ صفائی کا خیال رکھنا صرف ماسی یا مالی کی نہیں بلکہ ہم سب کی مذہبی وقومی ذمہ داری ہے.
اس مسئلہ سے تمام معاشرہ متاثر ہورہا ہے تو اس کے حل کیلیے بھی سب ہی کو کوشش کرنا ہوگی. والدین کو اس حوالے سے زیادہ ذمہ داری لینا ہوگی کیوں کہ ایک بچہ جو کچھ ماں کی گود سے سیکھتا ہے وہ سب ہمیشہ کیلیے اس کی ذات کا حصہ بن جاتا ہے.

جیسا کہ ہم کہیں کوئی جوتا الٹا پڑا دیکھ لیں تو جب تک اسے سیدھا نا کرلیں دل بے چین رہتا ہے, اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم بچپن سے والدین کو ایسا کرتے, دیکھتے آرہے ہوتے تو یہ چیز ہماری عادات میں بھی شامل ہوجاتی ہے. اگر اسی طرح والدین اپنے بچوں کو جھوٹ سے نفرت, غصے پر قابو اور اللہ تعالی پر توکل کرنا سکھائیں تو یقینا یہ تمام چیزیں بھی ان کی عادات میں شامل ہوسکتی ہیں.

لیکن اس کیلیے ہمیں حضور ﷺ کے اسوہ حسنہ کو عام کرنا ہوگا تاکہ ہماری نئی نسل یہ جان سکے کہ کس طرح سچ بولتے وقت بھی کسی کی کردار کشی اور دل آزاری سے بچا جاسکتا ہے, اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بجائے معاف کرکے دل جیتے جاسکتے ہیں, جانی دشمن کو معاف کرنے والا وسیع ظرف حاصل کیا جاسکتا ہے اور کیسے دنیاوی معاملات میں خوف خدا کو شامل کرکے مخلوق خدا پر ظلم کرنے سے بچا جاسکتا ہے.
اسلام ایک مکمل ضابطہء حیات ہے, زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے متعلق اسلام رہنمائی فراہم نا کرتا ہو.

جدید دور کے اس ابھرتے ہوئے مسئلے کے متعلق بھی اسلام چودہ سو سال پہلے جامع اصول طے کرچکا ہے. بدلہ نا لینے, غصے پر قابو رکھنے اور مسکرا کر ملنے پر بہت سے انعامات سے نوازا گیا ہے. ہمیں بس کرنا یہ ہے کہ خود بھی ان تعلیمات پر عمل کریں اور نئی نسل کو بھی ان سے روشناس کروائیں تاکہ ہماری نسلیں بھی سنور جائیں اور غیر مسلم اقوام پر بھی اسلامی تعلیمات کی جامعیت واضح ہوجائے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :