اہل ثروت !!! آپ کی توجہ درکار ہے

بدھ 23 مئی 2018

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

دنیا میں پاکستان کا شمار چند ایسے ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں سب سے زیادہ خیرات دی جاتی ہے ۔مستحق ہو یا غیر مستحق ،اہل پاکستان دل کھول کر ہر ایک کی امدا د میں آگے آگے ہوتے ہیں جس کا ثبوت چوراہوں میں بیٹھے وہ لوگ ہیں کہ جن کے بارے مصدقہ اطلاع ہوتی ہے کہ یہ فراڈئیے ہیں لیکن ان کی گود میں بیٹھے معصوم بچوں کے چہرں کی جانب دیکھتے ہوئے رہا نہیں جاتا اور یوں اپنی اپنی استطاعت کے مطابق ان کی امداد کر دی جاتی ہے ۔

پاکستان میں چلنے والے ہزاروں سماجی اور رفاعی ادارے اہل پاکستان کی جانب سے د ی گئی امداد کے باعث لوگوں میں آسانیاں تقسیم کر نے کے مشن پر گامزن ہوتے ہیں ۔ بالخصوص ماہ مبارک رمضان میں زکوٰہ،صدقہ و خیرات کے تما م ریکارڈ ٹو ٹ جاتے ہیں ۔ یہ وہ مہینہ ہے جو لوگوں میں تحریک پیدا کرتا ہے اور یوں لوگ ایک دوسرے کے کام آنا اوراپنی خون پسینے کی کمائی اور اللہ رب العالمین کی طرف سے عنایت کردہ مال وزر کو غریبوں اور محروموں کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرنے کو انسانی ہمدردی کی اعلیٰ مثال سمجھتے ہیں۔

(جاری ہے)

چونکہ اسلام انسانوں کی بھلائی، خیرخواہی اور ہمدردی کے جذبات کو فروغ دینے والا مذہب ہے، اسی لئے فطری طورپر صدقہ وخیرات اور انفاق فی سبیل اللہ اہل اسلام کے لئے ایک مطلوبہ اور لازمی صفت ہے۔
صدقہ و خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ کے بے شمار فضائل قرآن پاک کے علاوہ احادیث مبارکہ میں کئی جگہ بیان ہوئے ہیں ۔ جیسے کہ قرآن حکیم میں فرمایا گیا ہے کہ:”ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے، اللہ تعالیٰ اُسے بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر عطافرمائے۔

اللہ ہی تنگی و کشادگی دیتا ہے۔اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے”(البقرہ:۵۴۲)اسی طرح حدیث پاک ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جہنم کی آگ سے بچو،چاہے کھجور کا ایک ٹکڑاہی دے کر(بخاری)، صدقہ گناہ کو بجھا دیتا ہے، جیسے پانی آگ کو بجھا تا ہے (ترمذی) صدقہ اللہ تعالیٰ کے غصے کو کم کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔(ترمذی)، صدقہ کرو،کیونکہ یہ تمہیں دوزخ سے محفوظ رکھے گا۔

(طبرانی)قرآن پاک میں صدقہ اور انفاق کرنے والوں کے تعلق سے ایک آیت یہ بھی ہے:''جو لوگ اپنے مالوں کو رات دن چھُپے کھُلے خرچ کرتے ہیں، ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر ہے، اور نہ انہیں خوف ہے نہ غم ۔(البقرہ: ۴۷۲)
قارئین ! قرآن حکیم و احادیث نبویہ ﷺ کی روشنی میں یہی وہ بشارتیں ہیں جس کی وجہ سے اہل اسلام سخاوت میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

یقینا قدرت کی طرف سے جس کا بدلہ نہ صرف آخرت میں بلکہ دنیا میں بھی انہیں پورا پورا دیا جا تا ہے۔ پورے سال اور بالخصوص ماہ رمضان میں لوگوں میںآ سانیاں تقسیم کر نے کا عمل جاری رہتا ہے ۔ مسکینوں، محتاجوں اور بیواؤں کے گھروں میں راشن کی تقسیم کا عمل، انہیں نئے کپڑے خرید کر دینے کا عمل، مسجدوں ، گلیوں اور چوراہوں میں افطار دستر خوان کا اہتمام کر نے کا عمل ، کچھ خاص مقدار میں نقد رقم کا بندوبست کر کے کچھ دنوں کے لئے غریبوں کی زندگی میں آسانی پیدا کر نے کا عمل ،مسجدوں کی تزئین و آرائش اور ان میں نمازیوں کی آسانی کے لئے ائیر کنڈیشنڈ لگانے کا عمل ، جس جس کو نیکی کی جو صورت سمجھ آتی ہے وہ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق عمل پیراہوتا نظرا ٓتا ہے ۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نیکی کے ان سب کاموں کے باوجود معاشرے میں غربت ، بے روزگاری ، بھوک اور افلاس روز بروز بڑھ رہا ہے اور جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو مچھلی پکڑنا نہیں سیکھا رہے بلکہ انہیں مچھلی پکڑ کر کھلانے کا عادی بنا رہے ہیں ۔ ہم صرف ایک مہینے ان کی ضروریات کو پورا کر کے یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہم نے اپنا حق اداء کر دیا اور یوں وہ گیارہ مہینے اپنی ضروریات کو پورا کر نے کے لئے جس کرب سے گذرتے ہیں وہ یہی جانتے ہیں ۔


قارئین کرام ! مصدقہ اطلاعات کے مطابق 90فیصد سفید پوش لوگ کرایہ کے گھروں میں رہائش پذیر ہیں ۔ گھر کا ماہانہ کرایہ اور ہر سال اس میں اضافہ ان کی کمر توڑ کے رکھ دیتا ہے ۔یہی وہ وجہ ہے کہ انہیں اپنی جائز ضروریات پورا کر نے کے لئے شدید تگ و دو کر نی پڑتی ہے ۔ ایک اور مصدقہ اطلاع کی روشنی میں یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ اپنے بد تر گھریلو حالات دیکھ کر سفید پوش گھر انے کی بچیاں جو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا موت کے مترادف سمجھتی ہیں ، اپنے گھر والوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر غلط رستے کی مسا فر بن جاتی ہیں اور یوں پھر جس سے واپسی نا ممکن ہو جاتی ہے اور اس کے ذمہ دار ہم سب لوگ ہیں ۔

کیا اچھا ہو کہ ہم اپنی اپنی استطاعت کے مطابق یا کوئی منظم طریقے کے تحت اپنی زکوٰة ، صدقہ و خیرات سے ان سفید پوش لوگوں کے لئے ایک کمرے کے مکان کا بندو بست کر دیں اور مجھے یقین ہے کہ جس کے لئے ا ظہار گرو پ جیسے ادارے بغیر کسی منافع کے اپنی خدمات پیش کر نے کے لئے تیار ہو جائیں گے ۔ اس سے جہاں سفید پوش لوگوں کی زندگیوں میں آسانی آسکے گی ، ان کی بچیوں کی عزتیں محفوظ ہو سکیں گی وہاں ہمارے عطیات بھی درست طریقے سے استعمال ہو سکیں گے ۔ تو پھر دیر کس بات کی؟ آئیں اور اس ماہ رمضان سے ہی نیکی کے اس عظیم کام کا آغاز کردیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :