ہم نبی محترم ﷺ کو کیا منہ دیکھائیں گے؟

ہفتہ 10 اکتوبر 2020

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

ہم بطور مسلمان اور پاکستانی جس نبی محترم ﷺ کے ماننے والے ہیں اور جن کی محبت و عقیدت میں ہم جانوں کی بھی پرواہ نہیں کرتے، حضرت امامہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:”میرے بندے کے اعمال میں محبوب ترین عمل میرے بندوں کے ساتھ خیر خواہی کرنا ہے“۔ (مسند احمد، حدیث نمبر:22191 ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں خیر خواہی کی بڑی اہمیت ہے، اللہ کے نزدیک کسی انسان کے ساتھ خیرخواہی کرنا محبوب ترین عمل ہے۔


تاریخ اسلامی تو ویسے پوری کی پوری خیر خواہی کے واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن یہاں صرف ایک واقعہ اپنے قارئین کے لئے تحریر کر رہا ہوں کہ حضرت جریر  نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر تمام مسلمانوں سے خیر خواہی کی بیعت کی تھی اور وہ اس معاملہ میں کبھی چوکتے نہ تھے، ایک مرتبہ ان کے ایک وکیل نے تین سو درہم میں ان کے لیے گھوڑا خریدا، جب آپ  نے گھوڑا دیکھا تو محسوس ہوا کہ یہ تو چار سو درہم کے مساوی ہے تو آپ  نے گھوڑے کے مالک سے فرمایا کہ تم اسے چارسو درہم میں فروخت کرنے پر راضی ہو؟ اس نے کہا بالکل راضی ہوں، پھر آپ کو خیال ہوا کہ یہ تو پانچ سوکا لگتا ہے تو آپ  نے فرمایا: اسے پانچ سو میں فروخت کرو گے؟ مالک نے رضامندی کا اظہار کیا، پھر ان کو خیال ہوا کہ یہ تو چھ سو درہم کا لگتا ہے، پھر اسی طرح کا سوال و جواب ہوا، پھر سات سو، پھر آٹھ سو تک پہنچے اور جس گھوڑے کی قیمت تین سو درہم طے ہوچکی تھی، فروخت کرنے والا بھی تین سو درہم پر دینے کے لیے رضامند تھا؛ لیکن آپ  نے یہ خیر خواہی کے خلاف سمجھا کہ جو گھوڑا آٹھ سو کا ہو، اسے صرف تین سو میں خریدا جائے؛ چنا نچہ آپ  نے فروخت کنندہ کو آٹھ سو درہم دے کر گھوڑا خریدا۔

(جاری ہے)

(تہذیب الأسماء واللغات: 148/1 )۔
قارئین محترم !یہ تھی دین اسلامی کی روح اور یہ تھا میرے نبی ﷺ کا اور ان کے ساتھیوں رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کا عمل ، اور ایسے ہی عمل کے وہ ہم سے متقاضی تھے ۔ لیکن افسوس صد افسوس !!! ہم صرف زبانی و کلامی محبت و الفت کے دعووں میں کھو گئے اور جس عمل کا ہم سے تقاضا کیا جا رہا تھا، اس سے بالکل خالی ہو کر رہ گئے ۔

حکمرانوں سے لیکر عام عوام تک ،ہم سب اسلام کی تعلیمات کے مطابق عمل کو چھوڑ کر اپنے نفس کو خوش اور توانا رکھنے میں مصروف عمل ہیں ۔ حالیہ دنوں میں اشیا ء ضروریہ کی آسمان تک پہنچتی قیمتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ خیر خواہی اور ایک دوسرے کے دکھ سے واقفیت اور لوگوں کے دکھوں کو کچھ کم کرنے کی توفیق سے بھی ہم خالی ہو چکے ہیں ۔
معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں ریاست نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے ۔

مہنگائی کے طوفان کے سیلاب کے آگے کوئی بندھ باندھنے کو تیار نہیں ۔بلکہ آئے روز حکمرانوں کے احکامات کے وجہ سے غریب اور عام آدمی پر زندگی تنگ ہوتی جا رہی ہے ۔ عام آدمی کو زندہ رہنے کے لئے درکار اشیا ضروریہ اس کے بس سے باہر ہو رہی ہیں مزید ظلم تو یہ ہے کہ پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنا نے کے دعویدار حکمران اس گناہ کی سرپرستی کر رہے ہیں ۔

میں نے ذاتی طور پر اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ بیماریوں میں مبتلا غریب لوگ روزانہ کی بنیادوں پر اپنی ادویات لیتے تھے ، لیکن ادویات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی وجہ سے اب ان کی اتنی سکت بھی نہ رہی ہے کہ وہ زندہ رہنے کے لئے ادویات خرید سکیں ۔ ایسے ہی آٹے، گھی و چینی کی قیمتیں ہیں جو روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہیں ۔
حکمرانوں سے تو کیا شکوہ ، ان کی آنکھیں تو اب حقیقیت دیکھنے سے بھی عاری ہو چکی ہیں، ملک کے مخیر حضرات جن کا کام تھا اس بد ترین مہنگائی میں جس کی وجہ سے غریب اور عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوتی جا رہی ہے، اس کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرتے ۔

ان مشکل ترین حالات میں غریب کی زندگی کو مزید عذاب بنا نے میں کوئی کسر انہوں نے نہیں چھوڑی ۔ جس کی تازہ ترین مثال چینی وآٹے کے بحران میں مصنوعی قیمتیں بڑھا کر انہیں فروخت کر نے کا مکروہ دھندہ ہے ۔ بڑے بڑے تاجر جس دھندے میں ملوث ہیں اور زیادہ تر ان میں سے ایسے ہیں جو ہر مہینے عمرہ کر نے کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور عشق نبی ﷺ کے دعویدار بھی ، لیکن اپنے ان اعمال کی وجہ سے عمل و اخلاص سے خالی ہو جاتے ہیں ۔


قارئین کرام !میں سمجھتا ہوں کہ اصل اسلام اور اصل عشق نبی ﷺ تو ہمارے اعمال و کردار سے جھلکنا چاہئے ۔ ہمارے معاملات ایسے ہونے چاہئیں جس سے دوسرے مسلمانوں کی خیر خواہی کی خوشبوئیں پوری فضا کو معطر کردیں ۔ جیسے حضرت جریر  اور دیگر صحابی کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کا دوسرے لوگوں کے ساتھ خیر خواہی کا عمل تھا اور یہی وہ وجہ ہے کہ آج کئی ہزار سال گذر جانے کے باوجود ان لوگوں کے نام مبارک تاریخ میں زندہ ہیں اور تا قیامت زندہ رہیں گے۔

رہے دوسری طرح کے لوگ جو صرف دنیاوی فائدے کو ہی مقدم رکھتے ہیں نہ تو تاریخ انہیں یاد رکھتی ہے اور نہ ہی اپنے نفس کی پیروی اورلوگوں کے حقوق کو پامال کر کے صرف مال اکھٹا کر نے کی خواہش میں ان کے پاس یہ سوال ہو تا ہے کہ روز قیامت ،ہم نبی محترم ﷺ کو کیا منہ دیکھائیں گے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :