پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی لائق تحسین کار کردگی !

ہفتہ 2 جنوری 2021

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

ہمارے ملک میں جہاں حکمرانوں سے لیکر عام آدمی تک کوئی بھی اپنی ذمہ داریاں انجام دینے سے قاصر ہے وہاں اگر کوئی ادارہ یا محکمہ اپنے فرائض بخوبی سر انجام دے رہا ہے اور اپنے وسائل کے مطابق نظام میں بہتری کے لئے کو شاں ہے تو بلا شبہ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔اس بد ترین دور میں بہترین کام کر نے والے ایک ادارے کا نام پنجاب ہائیر ایجو کیشن کمیشن اور اس کے چئیر مین پروفیسر ڈاکٹر فضل احمد خالدہیں ۔

گذشتہ دنوں جب میں نے ایک تنقیدی نگاہ سے پنجاب ہائیر ایجو کیشن کمیشن کے ادارے کو دیکھا تو ایک بھی کوتاہی سامنے نہیں آئی بلکہ حیران کن طور پر کچھ ایسے حقائق سامنے آئے جن کے بعد میں پروفیسر فضل احمد خالد کا مداح ہو گیا ہوں اور یہ کالم بھی ان کی انہی خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے تحریر کیا جا رہا ہے ۔

(جاری ہے)


قارئین !یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معیاری تعلیم کسی بھی ملک کی معاشی و معاشرتی ترقی کی رفتار کو بڑھانے اور غربت کی سطح کو کم کر نے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔

اقوام متحدہ کی سال 2020کی رپورٹ کے مطابق پاکستان, انسانی ترقی کے انڈکس پر عالمی درجہ بندی میں 189ممالک کی فہرست میں 152ویں نمبر پر ہے ۔ ملک کی 38فیصد آبادی کثیر الجہتی غربت کا شکار ہے ۔ سال 2017کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کی ساٹھ فیصد سے زائد کی آبادی نوجوان طبقہ پر مشتمل ہے ۔ بے روزگاری ، غیر خواندگی اور غیر ہنر مندی کے باعث ہمارا یہ نوجوان طبقہ معاشی ترقی پر بوجھ ثابت ہو رہا ہے ۔

حالانکہ بہترین تعلیم و ہنر مندی سے ہی ہم ان کو اقتصادی نظام کے کار آمد افراد بنا سکتے ہیں ۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی نے دنیا کی معاشیات اور معاشی ترقی کے نظریات کو یکسر بدل دیا ہے ۔ صنعتی اقتصادیات کی جگہ علمی اقتصادیات یعنی ”نالج اکانومی“نے لے لی ہے ۔تعلیمی ادارے اور جامعات اس علمی اقتصادی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

کیو نکہ یہیں سے اقتصادی ترقی کی نئی راہیں ، جہتیں و نظریات جنم لیتے ہیں ۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے انہیں ترقی دی جائے اور بدلتے ہوئے عالمی تناظر میں ڈھالا جائے ۔جس کے لئے اداروں کو بااختیاراور با وسائل بنا نا ازحد ضروری ہے ۔
اٹھارہویں ٓآئینی ترمیم نے جہاں صوبوں کو انتظامی مالی طور پر بااختیار بنایاوہیں تعلیمی شعبے کے لئے بھی یہ امید کی کرن ثابت ہوئی تاکہ موثر پالیسیوں کے ذریعے موجودہ نظام تعلیم کو جدید عالمی معیار کے اداروں کے مقابل لایا جا سکے ۔

اسی ترمیم کے مینڈیٹ کے تحت پنجاب اسمبلی نے سال 2014میں ایک ایکٹ پاس کیا ور صوبے میں اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے فروغ کے لئے پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ کمیشن کے موجودہ چئیرمین پروفیسر ڈاکٹر فضل احمد خالد جو کہ ایک ماہرتعلیم اور محقق ہیں نے اپنی تعیناتی کے کچھ ہی عرصے میں صوبے میں تعلیم و تحقیق کی بہتری اور قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر بالخصوص نوجوان طبقے کو معاشی دھارے کا کار آمد فرد بنا نے کی غرض سے تدریسی وتحقیقی اور فنی تربیت کے لئے مختلف منصوبے شروع کئے ہوئے ہیں۔

تعلیمی نظام کو جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کر نے اور درجہ بندی کے عالمی اداروں کے معیارات کو ذہن میں رکھتے ہوئے موثر اقدامات کئے گئے ہیں ۔یعنی محدود وسائل کے اندر پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے بھر پور کارکردگی دکھائی ہے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سال2020کی بین الاقوامی درجہ بندی میں پہلی پانچ سو جامعات کی فہرست میں پاکستان کی 9جامعات شامل ہیں جبکہ دو سال قبل یہ تعداد صرف ایک تھی۔

مجھے امید ہے کہ جلد ہی ڈاکٹر فضل احمد خالد کی قیادت میں پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن اپنی موثر حکمت عملی سے صو بائی اعلیٰ تعلیمی اداروں کو عالمی معیار پر لائے گا۔ جن پسماندہ علاقوں کے اعلیٰ تعلیمی ادارے اور طلبہ و طالبات کی ایک بڑی تعداد وظائف ، رہنمائی اور معیاری تعلیم سے محروم رہتے تھے اور پھر ان کے لئے رہی سہی پالیسیاں بنائی جاتی تھیں وہ بھی معروضی حالات اور درپیش مسائل سے مطابقت نہ رکھتی تھیں ۔

لہذا ڈاکٹر فضل احمد کی بدولت یہ بھی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ ان تعلیمی اداروں کو وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن ہوئی ہے وہیں ان اداروں کے اساتذہ اور طلبہ و طالبات کو تربیت اور وظائف کے ترجیحی مواقع میسر آئے ہیں ۔ ڈیڑھ سال کے قلیل عرصے میں چکوال، ننکانہ،مری، راولپنڈی اور میانوالی میں نئی سر کاری جامعات قائم کرنے کا سہرا بھی پروفیسر صاحب کے سر سجتا ہے ۔


اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کو روزگار مہیا کر نے کے لئے صوبے میں فنی تعلیم اور سر کاری کالجز میں کمیونٹی کالج پروگرامز کو متعارف کروایا گیا ہے تاکہ جہاں آجر کی ضروریات کو مقامی سطح پر ہی پورا کر کے نہ صرف روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں بلکہ طلبہ و طالبات کے اندر خود سے اپنا کاروبار شروع کر نے کی مہارت اور اعتماد پیدا کیا جائے ۔

تحقیق کے کلچر کو فراغ دینے اور اساتذہ و طلبہ میں تحقیقی جذبہ پروان چڑھانے کے لئے انہیں انٹرنیشنل ٹریول، گرانٹس ،فارن پی۔ایچ۔ڈی اسکالر شپس سمیت کئی پروگرامات کے لئے بیرون ملک بھجوایا جا رہا ہے ۔ کرونا وبا کے دوران جہاں سب سے زیادہ تعلیمی سلسلے کا نقصان ہوا ہے وہاں جامعات اور کالجز میں تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کے لئے موثر پالیسیاں تشکیل دی گئیں ہیں جس کی بدولت آن لائن تعلیمی سلسلہ کامیابی کے ساتھ جاری ہے ۔

اس کے علاوہ بیسیوں مزید ایسے اقدامات ہیں جنہیں لکھا جائے تو کئی صفحات کم پڑ جائیں لیکن پروفیسر داکٹر فضل احمد کی سرپرستی میں پنجاب ہائر ایجو کیشن کمیشن جدت کی راہ پر گامز ن ہے اور مجھے یقین ہے کہ تعلیمی و تحقیقی میدان میں ان کی کاوشوں کے بہت جلد مثبت نتائج بر آمد ہو نا شروع ہو جائیں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :