رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے غم!

منگل 5 جنوری 2021

Hayaa Tariq

حیاء طارق

غالب جس دور پر آشوب میں جیے، اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو نابود ہوتے دیکھا، ایک سلسلہ وار تمدن کی لڑی کا تسلسل ٹوٹتے دیکھا، نئی تہذیب نئے اخلاقیات، نئے اقدار کو زور پکڑتے دیکھا، سر کٹتے دیکھے، عزتیں لٹتی دیکھیں دلی اجڑتے دیکھی اور اتنا کچھ دیکھنے کے بعد یہ لازوال مصرعہ کہا
رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
گویا احساس کے مریض اگر غم سے جان پہچان بنا لیں، اس کے ذائقے سے آشنا ہو جائیں، اس کی بو میں آشنائی کی مہک پیدا کر لیں تو ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ غم غم نہ رہے اور اگر وہ رہے بھی تو ایک بے مایہ وجود کی حثیت سے کے جو انسان کے معمولات زندگی پر اثر انداز ہونے کی حثیت اور دل و دماغ جھنجھوڑ دینے کی طاقت کھو دے.
مجھے کچھ ایسا لگتا ہے کہ برصغیر میں رہنے والی مسلمانوں کی جمعیت دلی اجڑنے کے بعد سے کچھ ایسی رنج کی خوگر ہوئی کہ آج تک بڑی سے بڑی مصیبت اور تکلیف ان کے احساس کی برف کو نہ پگھلا سکی.

وقت ان کے درماندہ جسموں کو پائمال کرتا رہا اور یہ گویا اس پائمالی سے بھی لذت کشید کرنے کا ہنر جان گئے.
آج بھی ملک عزیز میں رہنے والے انبوہ در انبوہ انسان ویسے ہی بے حس اور سپاٹ ہیں جیسا دلی اجڑنے اور مسلم تہزیب کی لڑی ٹوٹنے پر تھے. صدیاں بیت گئیں ان کی بے حسی میں فرق نہ آیا.
اور بات تو یہ ہے کہ پاکستان کی حالیہ نسلوں نے تو ایسے ایسے دکھ بھی ہنس کر جھیل لئے کہ احاطہ گمان میں نہ سمائیں.

مگر ان کے ساکت چہروں کے تاثرات جنبش پذیر نہ ہونے تھے، نہ ہوئے.. انہوں نے اپنے کچے گھروں کی چھتوں پر اپنے ہی عزیزوں کے گرم خون کی پچی کاری ہوتے دیکھی اور بنانے والے کے فن کی داد دیتے رہے، بازاروں میں اپنے پیاروں کی کھوپڑیوں کے پیالے بکتے دیکھے تو منہ مانگوں داموں خرید لائے، اپنے گھروں میں سجائے اور گویا دیواروں کو زینت بخشی. ان کے مجمع بازوں نے ان کی بے حسی کو ان کی خوبی ثابت کیا اور سرمایہ داروں کے گماشتوں نے منبروں پر ناچ ناچ کر تقدیر کا چورن بیچا جو کہ خوب بکا.
انہوں نے اپنی معصوم بیٹی کی نچی ہوئی نعش کوڑا گھر سے اٹھائی اور اپنے اندر کہیں بہت دور ابلتے ہوئے طوفان کو یہ کہہ کر تھپکی دے دی کہ جب ہم کچھ کر نہیں سکتے تو جی جلانے کا فائدہ؟ انہوں نے ہونٹوں پر مچلتے سوالوں کو سینوں میں دفن کر دیا کہ سوال کرنا تو ان کی روایات میں ہی نہیں.

اپنی انا اور عزت کو درخت سے باندھ کر غیروں کے پتھروں کے حوالے کرتے ہوئے ان کت سیاہ رخساروں پر بہنے والے گدلے آنسووں کے قطرے زبان حال سے آج بھی یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ
رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
جانے کب تک اس مصرعے کا فسوں ہمارے احساسوں کو منجمد رکھے گا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :