
راجیہ سبھا اور سچن ٹنڈولکر
ہفتہ 22 نومبر 2014

جاہد احمد
(جاری ہے)
سچن کے نام کے باعث اس کام کی پوری دنیا میں خوب تشہیر ہوئی ہے لیکن پاکستان کے لئے تفصیلاٌ اس کارِ خیر کے محرکات کا ذکر کیا جانا اور انہیں سمجھنا ازحد ضروری ہے کیونکہ یہ منصوبہ سچن ٹنڈولکر کا نہیں بلکہ دیہی علاقہ جات کی ترقی کا مربوط اور جامع بھارتی حکومت کا منصوبہ ہے ۔
سچن ٹنڈولکر نے جون2012 میں بھارتی راجیہ سبھا یا ایوانِ بالا کے نامزد رکن کے طور پر حلف اٹھایا۔ بھارتی قانون کے مطابق راجیہ سبھا کے اراکین کی تعداد 250 ہوتی ہے جس میں سے 12 ارکان نامزدگی کی بنیاد پر راجیہ سبھا کا حصہ بنتے ہیں ۔ ان اراکین کے انتخاب اور نامزدگی کا اختیار بھارتی صدر کو حاصل ہے ۔بھارتی صدر زندگی کے مختلف شعبوں مثلاٌ سائنس، آرٹس،کھیل، فلاحی و رفاحی کاموں سے منسلک ایسے افراد کو منتخب کر سکتا ہے جو پارلیمان کی فعالیت اور افادیت میں اضافے کا سبب بن سکیں۔ اسی بنیاد پر سچن ٹنڈولکر کو 2012 میں بھارتی صدر پراتیبھا پاٹیل نے منتخب کیا اور یوں سچن حلف اٹھانے کے بعد بھارتی پارلیمان کا حصہ بن گئے۔ پارلیمان کے اراکین کو ہر مالی سال کے لئے پانچ کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈ مہیا کیے جاتے ہیں تاکہ یہ اراکین اپنے حلقہ میں عوام کی ضروریات کے پیش نظر عوامی نوعیت کے ترقیاتی منصوبے تعمیر کروا سکیں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سچن نے پہلے دو بھارتی مالی سالوں میں ایک روپیہ بھی نہ کسی منصوبے پر خرچ کیا اور نہ ہی کسی منصوبے پر کام کرنے کی سفارش پارلیمان میں پیش کی۔ اس طرح دو سالوں میں وہ دس کروڑ روپیہ جو ممبئی کے حلقہ میں عوامی فلاحی اور ترقیاتی کاموں پر خرچ کیا جانا چاہیے تھا خرچ نہ ہوسکا اور اسی سبب سچن کو بھارتی پارلیمان کے اراکین اور سیاسی تجزیہ کاروں کی طرف سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
آگے بڑھیئے! بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 11 اکتوبر2014 کو ’جیاپرکاش نارائین‘ کے یومِ پیدائش کے موقع پر بھارتی دیہی علاقہ جات کی تعمیر و ترقی اور صفائی ستھرائی سے جڑے پروگرام ’سنسد آدرش گرم یوجنا‘ کا اعلان کیا۔ اس حکومتی منصوبے کا مقصد دیہی علاقہ جات کی تعمیر و ترقی، کلچر کا فروغ، دیہی آبادی کے درمیان بھائی چارے اورامن و محبت کی فضا پیدا کرنا، کمیونیٹی کے نظریہ کو ابھارتے ہوئے باہمی مدد اور درپیش مسائل کو آپس میں مل جل کر حل کرنے کے جذبے کومضبوط و مربوط شکل میں وضع کرنا ہے۔اس کے علاوہ بچوں کی تعلیم کے لئے سکول، عوام کی صحت سے متعلق بنیادی سہولیات کی فراہمی،خوراک اور خصوصاٌ پینے کے صاف پانی کی دستیابی، صفائی ستھرائی اور تمام افراد بالخصوص مرد حضرات کو شراب و سگریٹ نوشی سے دور رکھنے کے اقدامات بھی اس منصوبے کا حصہ ہیں۔ اس حکومتی منصوبے کے تحت تمام پارلیمانی اراکین پر لاگو کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ سے اپنی مرضی کا ایک گاؤں منتخب کریں اور سال 2016 تک سالانہ پانچ کروڑ خرچ کر کے اسے ایک ماڈل گاؤں کے طور پر ابھاریں۔ اگلے مرحلے میں اراکین چاہیں تو دو یا تین گاؤں اپنی مرضی سے منتخب کر کے 2019 تک اگلے عام انتخابات سے پہلے انہیں بھی ماڈل گاؤں میں تبدیل کر دیں۔
’سنسد آدرش گرم یوجنا‘ کے تحت نریندر مودی نے اپنے حلقے سے ’جے پور‘ گاؤں کا انتخاب کیا ہے، سونیا گاندھی نے اپنے حلقے سے ’ادوا‘ گاؤں چنا، راہول گاندھی نے ’دیہہ ‘نامی گاؤں کی ذمہ داری اٹھائی جبکہ سچن ٹنڈولکر نے اپنے حلقے سے ’پوتم راجوری کاندریکا‘ کا ذمہ لیا ہے۔ سچن حکومتی پیسے و پلیٹ فارم سے راجیہ سبھا کے رکن کے طور پر اپنی حلف برداری کے دو سال بعد پہلی بار کسی عوامی منصوبے پر عمل پیرا ہوئے ہیں۔ لیکن سچن کے نام کا اپنی شہرت اور بھارت میں کسی دیوتا جیسی حیثیت اور اہمیت ہونے کے باعث کسی بھی حکومتی منصوبے سے جڑ جانا حکومت کے لئے بھی باعث فخر ہے اوردنیا بھر میں حکومتی اقدامات کی تشہیر اور توجہ حاصل کرنے کا آسان ترین ذریعہ بھی۔بھارت نے سچن کو شہرت، عزت، دولت، رتبہ، اعزازات اور وقار سب کچھ دیا ہے تو یقینا سچن ٹنڈولکر کا ایسے عوامی حکومتی منصوبوں کو وقت دینا اس عظیم کھلاڑی کی جانب سے بھارتی عوام کو حقیقی معنوں میں کچھ لوٹا دینے کا عمل ہے اور بھارت کے پارلیمانی و جمہوری نظام میں ہر طبقے کے افراد کا اعتمادظاہر کرتا ہے۔ یہ بھارتی جمہوری نظام کے تسلسل سے چلتے رہنے کا ثمر ہے کہ بھارتی پارلیمانی نظام ہر طبقہ فکر اور سچن جیسے عالمی شہرت یافتہ افراد کو ساتھ ملا کر عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے منصوبوں پر کامیابی سے عمل درآمد کی مکمل اہلیت حاصل کر چکا ہے۔
پاکستان میں صورتحال ذرا مختلف ہے۔ یہاں پارلیمان، جمہوریت اور سیاسی نظام کمزور بھی ہے اور اس کی عزت و توقیر بھارت کی نسبت حد درجہ کم ہے۔ اس بات میں دو رائے نہیں کہ ہم اپنی حقیقی شناخت’ پاکستانیت‘ سے بھی کوسوں دور ہیں۔ انفرادی سطح پر ذاتی مفادات ہمہ وقت قومی مفادات کے آڑے آتے ہیں۔بالعموم اسی ملک سے تمام قسم کے فوائد حاصل کرنے والے وقت آنے پر ملکی نظام کو برا بھلا گردانتے ہوئے پاکستانی معاشرے کو کچھ لوٹانے کے بجائے ذاتیات کے حصار میں قید رہتے ہیں۔بھارت سے ہزار اختلافات سہی لیکن عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ سیکھ جہاں سے ملے لے لو!
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
جاہد احمد کے کالمز
-
روم جل رہا ہے
جمعرات 24 اکتوبر 2019
-
ایسا کیوں نہ ہوتا
جمعہ 11 اکتوبر 2019
-
پپو جونیئر کا پاکستان
جمعرات 18 جولائی 2019
-
یہ بجٹ دودھ شہد کی نہر نہیں
ہفتہ 22 جون 2019
-
گوئیبلز طرز کا پراپیگنڈا اور پاکستان
بدھ 22 مئی 2019
-
سانڈ ،ایک حیوان! میٹا ڈار، ایک ہیرو
جمعرات 10 اگست 2017
-
پاکستانیت کیا ہے
اتوار 1 جنوری 2017
-
بھلے پکوڑیوں سے آگے
اتوار 5 جون 2016
جاہد احمد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.