گوئیبلز طرز کا پراپیگنڈا اور پاکستان

بدھ 22 مئی 2019

Jahid Ahmad

جاہد احمد

دوسری جنگ عظیم اختتام پذیر تھی، ریڈ آرمی نے برلن پر قبضہ قریبا مکمل کر لیا تھا اور نازی جرمنی کی شکست نوشتہ دیوار تھی۔30 اپریل1945 کو ہٹلر جرمنی کے شہر برلن میں واقع بنکر میں اپنی بیوی ایوا براون کے ہمراہ خود کشی کر چکا تھا۔ ہٹلر کی موت کے بعد جوزف گوئیبلز نازی جرمنی کا چانسلر بن گیا تھا۔ یکم مئی1945 کی شب جوزف گوئیبلز کی بیوی میگڈا گوئیبلز نے اپنی پانچ بیٹیوں اور ایک بیٹے کو سونے سے پہلے بہلا کر بیہوشی کی دوا دی، پھر یہ یقین کر لینے کے بعد کے بچے مکمل طور پر بیہوش ہو چکے ہیں میگڈا گوئیبلز نے اپنے ہاتھوں سے باری باری اپنے چھ بچوں کے منہ کھول کر ان کے دانتوں تلے سائنائیڈ کے کیپسول رکھے اور ہر بچے کے جبڑوں کو باہر سے پکڑ کر زور سے دبا کر بند کرتی چلی گئی۔

سائنائیڈ کے کیپسول بیہوش بچوں کے منہ میں چٹختے رہے اور تمام بچے ایک ایک کر کے بیہوشی کی حالت سے موت کے منہ میں جاتے رہے۔

(جاری ہے)

اس سفاک عمل کے دوران میگڈا کے ہاتھ نہیں کانپے جبکہ جوزف گوئیبلز بچوں کے کمرے کے باہرساکت کھڑا رہا۔ اپنے چھ بچوں کو قتل کرنے کے بعد میگڈا کمرے سے باہر آئی اور جوزف گوئیبلز کے ہمراہ بنکر سے باہر نکلی۔ دونوں میاں بیوی بنکر کے ساتھ واقع چھوٹے سے باغ میں جا کر آمنے سامنے کھڑے ہوئے۔

اس کے بعد کچھ محقیقین کے مطابق ان دونوں نے بھی سائنائیڈ کے کیپسول چبا کر اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر لیا جب کے دیگر مورخین کے مطابق جوزف گوئیبلز نے پہلے سامنے کھڑی میگڈا کے سر میں اپنے ہاتھ سے گولی ماری اور میگڈا کے گرتے ہی اپنے سر میں گولی مار کر خود کشی کر لی۔ پھر گوئیبلز کے احکامات کے مطابق نازی افسران نے ان دونوں کے مردہ جسموں میں مزید پانچ پانچ گولیاں داغیں اور بعد ازاں ان کی لاشوں کو تیل چھڑک کر آگ لگا دی گئی۔

یوں نازی حکومت اور اس کا تاریخ ساز پراپیگنڈا وزیر اپنے اختتام تک پہنچے!
نازی حکومت کا ظہور، مقبولیت اورعروج پراپیگنڈا کا مرہون منت تھا جو دوسری جنگِ عظیم کی شروعات کے بعد ہر ناکامی کے ساتھ نا قابل برداشت بوجھ بنتا چلا گیا تھا۔ ہٹلر اور گوئیبلز اس بوجھ کے ساتھ زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے لہذا اپنے اہل خانہ کے ہمراہ خودکشی آسان ترین انتخاب تھا۔


پراپیگنڈا ایک ہتھیار ہے کہ جس کا بنیادی مقصد مخصوص نظریے کی تشہیراور عوامی پذیرائی و قبولیت کے حصول کی خاطرعوام کی ذہن سازی ہے۔ دنیا بھر میں تمام سیاسی و غیر سیاسی قوتیں، جمہوری و غیر جمہوری حکومتیں، حزبِ اختلاف اور اہم طاقتور ادارے انہی مقاصد کے حصول کے واسطے پروپیگنڈا کا استعمال کرتے ہیں۔ پروپیگنڈا کی بنیاد اور مقدارمستعمل کے لئے مستقبل کے اہداف کا تعین کرتی ہے۔

حقیقت سے قریب تر بنیادوں پرکیا گیا پروپیگنڈا عوامی سطح پر بہت زیادہ ہیجان پیدا کئے بغیر ایسے معیاراور توقعات پیدا کرتا ہے جن کا حصول قدرے آسان اور کافی حد تک ممکن ہوتا ہے۔ اس کے بر عکس شدید نوعیت یا گوئبلز طرز کا پروپیگنڈا جھوٹ اور فریب کی حد تک غیر حقیقی بنیادوں پر استوار ہوتا ہے لہذا عوامی سطح پر انتہائی درجے کا ہیجان اور مقبولیت پیدا کرتے ہوئے ایسے معیار اور توقعات باندھتا ہے کہ جن کے حصول کے حقیقی امکانات انتہائی معدوم ہوتے ہیں۔


پاکستان تحریک انصاف دور حاضر کی وہ سیاسی جماعت ہے جس نے حکومت میں آنے کی خاطر بطور لائحہ عمل گوئیبلز طرز کے پروپیگنڈا کا بے دریغ استعمال کیا۔ عوامی سطح پرمقبولیت حاصل کرنے اور نا پسندیدہ قرار دی جا چکی شخصیات کو نیست و نابود کرنے کے مقصد سے بلا امتیاز ہر جائز ناجائز معاملے پر ہیجان پیدا کیا اورعوام الناس خصوصا نوجوانوں کو ہدف بناتے ہوئے حقائق کے برخلاف سنہرے، نیلے،پیلے، لال، ہرے، عودے،غرض ہر ممکنہ رنگت کے خواب بیچے۔

اس جماعت نے اپنے آپ کو دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے مقابل اعلی ترین کردار و اقدار کی حامل، انتہائی درجے کی حب الوطن اور قابل ترین جماعت جبکہ خان صاحب کو اس آخری مسیحا کے طور پر پیش کیا کہ جس کے انتظار میں پاکستانی قوم، ایوب خان کی سنہری آمریت کے بعد سے، ایک ٹانگ پر کھڑی ہے۔ ایک ایسی سیاسی جماعت جو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتی ہے اور چھوٹے بڑے ہر مسئلے کا حل جیب میں لئے لئے گھوم رہی ہے۔

عوامی محرومیوں کو مخصوص سیاستدانوں کی بد دیانتی سے منسلک کیا گیا جو قرضے اور عوامی ٹیکس کا پیسہ حکومت کے خزانے سے نکالتے ہیں اور لانچوں میں بھربھر کر پاکستان سے باہر منتقل کرکے اپنی جائیدایں بناتے رہے ہیں۔ 22کروڑ کی آبادی، مختلف تاریخ کی حامل اقوام، قوت کے نادیدہ سرچشموں اور ایک قدرے کمزور وفاق پر مشتمل پاکستان جیسے پیچیدہ ملک کو درپیش مسائل کا حل انتہائی سادہ و سہل نظریات کی صورت میں دیا گیا۔

اس انتہائی درجے کے پروپیگنڈا کی قیادت عمران خان صاحب نے پورے ڈھول ڈھمکے کے ساتھ بنفسِ نفیس خود فرمائی لہذا اس کے نتیجے میں سراب جیسی غیر حقیقی عوامی توقعات پیدا کرنے کی تمام ترتکلیف دہ ذمہ داری بھی انہی پرعائد ہوتی ہے۔
کیونکہ گوئیبلز طرز کا پراپیگنڈا بہر صورت حقیقت کے منافی، قلیل مدتی اور اختلافی صورتحال میں زیادہ کارآمد ہوتا ہے لہذا اقتدار میں آ نے کے باوجود اسے حقیقت کا روپ دینا بہت ممکن نہیں ہوتا۔

انتہائی اونچی عوامی توقعات بوجھ بننے لگتی ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس بوجھ میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ حکومتِ وقت پر بھی اسی بوجھ کے اثرات دکھائی دینے لگے ہیں کیونکہ اقتدار میں آنے کے محض نو ماہ کے اندر حکومت کی ہر محاذ پر ناقص ترین کارکردگی، غیر سنجیدگی، غیر ذمہ داری، انا پرستی، جوابدہی سے مکمل فرار، کوتاہ نظر فیصلے اور نا اہلی کے سبب معیشت کی ابتر کر دی گئی صورتحال سے لگے جھٹکوں نے عوامی توقعات اور امنگوں کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے اور نتیجتا عوامی سطح پرحکومت کی قابلیت پر ہی سوال اٹھنے لگے ہیں۔

اب عمران خان کوآپ میگڈا سے تشبیہ دے لیں، گوئیبلز سے یا ہٹلر سے، فرق نہیں پڑتا۔ عمران خان صاحب کی آل راونڈرنازی طبیعیت ہرکردار خود بخوبی نبھا رہی ہے۔ ان کے ہاتھ میگڈا کی طرح جماعت کے دماغ قرار دئیے جاتے رہے وزرا کی چھٹی کراتے ہوئے بھی ذرا نہیں کانپے۔ کئی مواقع پر خان صاحب فیصلہ سازی کے کمروں کے باہر ساکت کھڑے گوئیبلز کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔

بسا اوقات ہٹلر کی طرح فسطائیت سے بھرپور رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے نظریے کو پاکستان کی بقا، کامیابی اور ترقی کی آخری کنجی قرار دیتے ہیں۔
بہرحال حکومت کی مسلسل نعرے بازی، تنگ نظری، ناعاقبت اندیش فیصلہ سازی، انا پرستی اور نا اہلی نے پاکستان کی اکثریت کے لئے جو معاشی صورتحال پیدا کر دی ہے اسے کسی حد تک بھی درست کرنے کے لئے اب کافی وقت اور اہلیت درکار ہو گی۔

اس نئے تجربے کی قیمت عام پاکستانی مزید مشکلات سہنے کی صورت میں ادا کر رہے ہیں اور کریں گے۔ خدا نہ کرے کہ عوامی توقعات اور حقائق کی خلیج کا یہ بوجھ کسی وقت اس قدرنہ بڑھ جائے کہ خان صاحب کے لئے حکومت سے چلے جانا ہی آسان ترین رستہ باقی رہ جائے۔ خالد احمد کا یہ شعرحکومتِ وقت کے لئے حالات کا مکمل احاطہ کر دیتا ہے کہ:
میری انا نے نہلایا ہے مجھ کو میرے خون میں
مجھ پر ہوا ہے اول و آخر وار میری تلوار کا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :