روم جل رہا ہے

جمعرات 24 اکتوبر 2019

Jahid Ahmad

جاہد احمد

قیامِ پاکستان کے وقت سے سیاسی اور غیرسیاسی قوتوں کے مابین جاری اقتدار کے کھیل میں عمران خان سے زیادہ نظریاتی، ذہنی اور شخصی مخمصے کا شکار کردار شاید ہی کبھی سامنے آیا ہو۔ وہ اس قدر ژولیدہ سوچ حکمران ثابت ہو رہے ہیں جن کے بارے میں پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنی ادھیڑ بن کا شکار شخص ریاستی امور کا نگہبان ٹھہرا ہے۔


عوام سے خطاب فرمائیں تو ریاست کی نظریاتی اساس کی بات کرتے ہوئے ریاستِ مدینہ کے قیام کی نوید سناتے ہیں اور کسی جدید مسلمان خلیفہ کی طور پر اپنا آپ پیش کرتے ہیں تب ایک وجیہہ سیاسی شخص کی زبان سے مرحوم جنرل ضیاء مکالمہ کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ چین کے دورے پر جائیں تو کسی چینی حاکمِ مطلق کی طرح اپنے عہدے کے لئے اختیارات کے مکمل ارتکاز کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں اور مخالفین کو کرپشن کی بنیاد پر جیل میں ڈال کر چکیاں نہ پسوا سکنے پر افسوس فرماتے ہیں تب وہ فسطائی نظریات کے علم بردار اور آمرانہ روایات کے امین معلوم پڑتے ہیں۔

(جاری ہے)

مہاتیر محمد صاحب سے ملاقات ہو جائے تو ریاستِ پاکستان کے لئے ملائشیا کا معاشی خاکہ تجویز فرما دیتے ہیں لیکن اختتام بین الاقوامی مالیتی ادارے کے آگے سب کچھ ہار جانے پر ہوتا ہے۔ قائداعظم کا نام لے لے کر ایک طرف اپنے آپ کو جمہوری سیاست دان کہتے ہیں تو دوسری طرف جلسوں میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے امریکی دورے کی فلمیں چلا چلا کر اسے پاکستان کا سنہرہ ترین دور ثابت کرتی اشتہاری مہم بھی چلائے جاتے ہیں۔

اپنے آپ کو جمہوری پارلیمانی نظام کا سرخیل بھی سمجھتے ہیں اور غیر جمہوری قوتوں کا استعارہ بھی بنے بیٹھے ہیں۔ تمام حقائق اور عوامی مسائل سے شناسائی کا دعوہ بھی اور لاعلمی و خود فریبی ایسی کہ قومی معاملات سے بے خبر امہ کی امامت کا مغالطہ بھی پال بیٹھے ہیں۔ نظام اور اداروں کی مضبوطی کا مدعا بھی اٹھاتے ہیں اور نرگسیت کا عالم ایسا ہے کہ جس طرح چلتی بس میں چورن فروش تمام مسافروں کی ہر دائمی بیماری کا علاج تھیلے سے مختلف رنگت کی، ایک ہی قسم کے چورن سے بھری، ڈبیاں نکال نکال کر تسلی بخش علاج کے طور پر بیچ دیتا ہے ٹھیک اسی طرح وزیرِ اعظم صاحب اپنی شخصیت کو رنگ برنگے لبادے اوڑھا کر تمام مسائل کے شافی حل کے طور پیش کر دیتے ہیں۔

ان شخصی تضادات اور مخمصوں کی فہرست اس قدر طویل ہے کہ صفحات کے صفحات رنگیں کیے جا سکتے ہیں۔
وزیرِ اعظم پاکستان کے خستہ حال نظریات، ذہنی انتشار، ناقص ترجیحات اور مخمصے کی قیمت پاکستان انتہائی نقصان اٹھا کر ادا کر رہا ہے۔ ملک کی معاشی صورتحال انہدام پذیر ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری عوام الناس کے لئے ناقابلِ برداشت ہوتی چلی جا رہی ہے۔

انتہائی حد کے پروپیگنڈا کا ہتھیارعمران خان صاحب نے حکومت میں آنے کے لئے بے دریغ استعمال کیا تھا جس کے باعث پیدا کی گئیں غیر حقیقی توقعات اب بدترین کارکردگی اور تلخ معاشی حقائق کے بوجھ تلے دبتی جا رہی ہیں، حالانکہ پراپیگنڈا کے سر پر سوار کسی بھی مقبول حکومت کے لئے توقعات پر مناسب حد تک بھی پورا نہ اترنا کوئی انتخاب ہو ہی نہیں سکتا۔

توقعات کی تکمیل میں ناکامی کا خلا اچھے مستقبل بارے مزید آس دلا کر، اصل حل طلب مسائل کو پس منظر میں ڈال کر اور غیرضروری معاملات کو انتہائی اہم قومی امور بنا کر پیش کرنا نہ صرف یہ کہ حکومت کی سنجیدگی اور اہلیت پر سوالات کھڑا کرتا ہے بلکہ اس کی ساکھ تباہ کرنے کا سبب بھی بن رہا ہے۔ ستم لیکن یہ ہے کہ حکومتی اراکین، وزرا اور وزیرِ اعظم ان زمینی حقائق کا ادراک تک کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔

نرگسیت، خود فریبی، ترجیحات اور لاعلمی کا یہ عالم ہے کہ حالیہ دنوں میں وزیرِ اعظم سنجیدہ نوعیت کے عوامی مسائل سے قطع تعلق ہوئے دو عدد روایتی فریق مسلم ممالک کے درمیان خود ساختہ ثالث کا کردار ادا کرنے میں بری طرح مگن رہے۔ یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ وزیرِ اعظم صاحب ۱۴ ماہ کی حکومت کے بعد اب ملک کی ابتر معاشی صورتحال اور غیر تسلی بخش کارکردگی کے چبھتے ہوئے سوالات کے بدلے میں نئی ڈبی میں پرانا چورن بیچتے ہوئے قوم کے سامنے اپنا تشخص امہ کے نئے امام کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو خطے میں امن کا خواہاں ہے، انتہائی زیرک ہے اور خوب اثر و رسوخ بھی رکھتا ہے۔

پراپیگینڈا اور دکھاوے پر مبنی یہ لائحہ عمل کسی صورت عوام کی معاشی مشکلات میں کمی لانے کا سبب نہیں بن سکتا البتہ حکومت کی جانب سے عوامی مشکلات کو مسلسل نظرانداز کیا جانا عوامی اضطراب میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ضرور کرتا چلا جا رہا ہے۔ تمام بین الاقوامی مالیاتی ادارے مشیر خزانہ اور حکومت کی جانب سے معیشت میں بہتری اور ’بس یہ دوسری گلی کے موڑ پر کھڑی‘ مضبوط خود کفیل معیشت کے دعووں کے برعکس کم از کم آئیندہ دو برسوں کے لئے پاکستانی معیشت کی بہت اچھی منظر کشی نہیں کر رہے لہذا حکومت کی جانب سے اچھے دنوں کی آس میں عوام کو مزید برداشت کی تلقین کرنا دانشمندانہ نصیحت ثابت نہیں ہو سکتی، کیونکہ عوام کو میسر سہولیات اور معاشی حالات موجودہ دورِ حکومت میں بہتر سے خراب ہو کر بدترین ہو چکے ہیں۔

وزیرِ اعظم صاحب کو نظریاتی انتشار، غیر سنجیدہ مفروضات، خود فریبی، دکھاوے، نرگسیت، مسیحائی، نسخوں، ٹوٹکوں، فسطائی طرزِ عمل اور مخمصے سے جان چھڑا کر سنجیدگی سے پاکستان کے سنگین ہوتے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عمران خان صاحب پچھلے ۱۴ ماہ میں پیدا ہوئیں معاشی مشکلات، عوامی رائے، بنیادی ضروریات، جذبات اور ٹماٹر، پیاز کی عام آدمی کہ پہنچ سے باہر ہو چکی قیمتوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے کیونکہ بہرحال وہ جتنے بھی وجیہہ ہوں، سوراخوں والے کپڑے پہنیں، رنگ برنگی ڈبیاں نکال نکال کر بانٹیں، طویل مدتی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ معاشی کارکردگی کی بنیاد پر ہونا ہے۔ فی الوقت منظر یہ ہے کہ روم جل رہا ہے اور مخمصے کا شکار نیرو بانسری بجانے میں مشغول ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :