یہ بجٹ دودھ شہد کی نہر نہیں

ہفتہ 22 جون 2019

Jahid Ahmad

جاہد احمد

 یقیں محکم ہے کہ وزیرِاعظم پاکستان زیرِ بحث بجٹ کے نفاذ کی صورت میں پھٹیچرعوام پر پڑنے والے تمام تر منفی اثرات سے بخوبی واقف ہیں اور امید واثق ہے کہ اس بجٹ کے نفاذ کے نتیجے میں عوام کی جانب سے مچنے والی ہاہا کار کے بعد یہ سننے کو نہیں ملنے والا کہ خان صاحب کو ریلو کٹا عوام پر بجٹ کے قاتل اثرات کی خبر اچانک ٹی وی دیکھتے ہوئے ملی جس کے بعد انہیں پہلے شدید غصہ اور پھر یاد آیا کہ اب وہ پاکستان کے وزیرِ اعظم ہیں، لیکن تب بھی وہ تلملانے کے علاوہ کچھ نہ کر سکے کیونکہ انہیں اپنی معصومیت پر کامل یقین ہے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو بھی برا ہو رہا ہے یا ہو گا وہ پچھلی حکومتوں کی وجہ سے ہو رہا ہے یا ہو گا۔

حکومتی حلقوں کی جانب سے درست فرمایا جا رہا ہے کہ حزبِ اختلاف اس بجٹ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور یہ بجٹ پاس ہو کر رہے گا! مکمل اتفاق ہے کہ حکومت کی ایوانِ زیریں میں عددی برتری کے باعث بجٹ کا پاس ہونا ناگزیر ہے ، حیرانگی لیکن اس لئے لاحق ہے کہ ایک ایسے بجٹ کو منظور کرانے کے عمل کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے جو عوام کے لئے محض مشکلات میں اضافے کا پروانہ ہے۔

(جاری ہے)

حکومت اس شدت سے بجٹ کی منظوری پر نعرہ زن ہے کہ جیسے بجٹ کے نافذ ہوتے ہی مملکتِ خداداد پاکستان کے طول عرض میں موجود گٹروں سے جا بجا دودھ و شہد کی نہریں پھوٹ پڑیں گی، بیروزگار افراد کے دروازوں کے سامنے نوکریوں کے انبار لگ جائیں گے، مہنگائی پھاوڑا لے کر اپنی قبر کھودے گی اور میت بن کر خود سے جا دفن ہو گی، ڈالر زمین پر اتر کر روپے کے سامنے سر بسجود ہو جائے گا، پوری دنیا سے سرمایہ کار قومی ائیر لائین کے ہوائی جہازوں کے پہیوں سے لٹک لٹک کر پاکستان کا رخ کریں گے، کاروبار کے لئے مرکزی بینک کی پالیسی شرح سود صفر ہو جائے گی اور آٹھ ہزار ارب روپے کا ٹیکس ہنستے گاتے اڑتے اڑاتے حکومتی خزانے میں جمع ہونا شروع ہو جائے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ بجٹ کے نفاذ کے بعد اس کے منفی ترین اثرات وطنِ عزیز کی اکثریت شمار ہونے والے تنخواہ دار، متوسط اور نچلے طبقات پر پڑیں گے اور اس اکثریت پرچہار جانب سے معاشی دباؤ میں اضافہ ہو گا۔ ایک طرف سے تنخواہ پر ٹیکس میں اضافے کی وجہ سے ہاتھ میں آنے والی اصل آمدن کم ہو جائے گی اور قوتِ خرید میں کمی درپیش ہو گی، دوسری طرف روز مرہ استعمال کی اشیا بشمول اشیائے خور و نوش پر لاگو ہونے والے اضافی سیلز ٹیکسوں سے مہنگائی میں براہِ راست اضافہ ہونے کے سبب دیگر ضروری اخراجات کے لئے بچنے والی رقم میں خاطر خواہ کمی واقع ہو جائے گی، تیسری طرف سے معیشت کی شرح نمو قریبا آدھی رہ جانے کے باعث نوکریاں اور چھوٹے کاروبار پہلے ہی انتہائی غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہیں اور چوتھی طرف تیل، گیس اور بجلی کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں جن میں اضافہ کسی بجٹ کا مرہونِ منت نہیں ہوتا۔

لہذا اس اکثریت سے خصوصی درخواست ہے کہ پائلٹ کی جانب سے معیشت کے ٹیک آف کرنے والے اعلان کے تحت اپنی سیٹ بیلٹیں ذرا زور سے باندھ لیں تاکہ پرواز کے دوران جھٹکے کم سے کم محسوس ہوں۔
اب حکومت کی طرف سے ایسے سخت غیر عوامی بجٹ کو منظور کرانا جو بہرحال عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط کے عین مطابق اور حکومت کے تمام تر انتخابی وعدوں کے برخلاف تشکیل پایا ہے، موجودہ حکومت کی غیر سنجیدگی، نااہلی اور عوامی مسائل سے لاتعلقی ظاہر کرتا ہے۔

 یقینا پچھلے ایک سال کے دوران ابتر ہوئے معاشی حالات کے بعد اس بجٹ کا نفاذ عوامی سطٰح پر حکومت کی معاشی کارکردگی بارے کوئی مثبت رائے تخلیق نہیں کر سکے گا۔ وزیرِ اعظم صاحب کا مالی بدعنوانی کے خلاف بیانیہ، رات گئے کی تقاریر، ملکی قرضوں پر ناسمجھی کی حد تک لعن طعن، طاقتور کمیشنوں کا قیام، مخصوص سیاسی جماعتوں پر الزام تراشی اور کڑے احتساب کے نعرے، عوام کی بڑھتی ہوئی معاشی تکالیف کا کسی طور ازالہ نہیں کر سکتے۔

 عوام کی بنیادی ضروریات آئے دن کے غیر ضروری بھاشنوں، پروپیگنڈا اور ٹویٹوں سے بھی پوری نہیں ہو سکتیں۔ مالی بدعنوانی یقینا پاکستان جیسے کسی بھی ملک کا ایک مسئلہ تو ہوسکتی ہے لیکن نہ ہی یہ تمام مسائل کا واحد حل ہے اور نہ ہی پاکستان کا سب سے بڑا یا آخری مسئلہ ہے۔ یہ بیانیہ درحقیقت ایک طرف وزیرِاعظم صاحب کی پاکستان کے حقیقی عوامی مسائل سے قطع تعلقی اور معیشت و زمینی حقائق سے مکمل نابلدی کا واضح ثبوت ہے تو دوسری جانب حکومت کی ناقص کارکردگی کو پردے کے پیچھے چھپا دینے کی کوشش ہے۔

اس صورتحال میں حزبِ اختلاف کا بجٹ کی بھرپور مخالفت کرنا انتہائی قابلِ فہم عمل ہے کیونکہ سوالیہ نشان لگے انتقام جیسے احتساب کے عمل کا شکار حزبِ اختلاف کے لئے ایسے بجٹ کو بنیاد بنا حکومت کو دباؤ میں ڈالنا اور مستقبل میں کسی بھی ممکنہ تحریک کو چلانے کے پیشِ نظر عوامی مفادات کے نام پر بجٹ کی پارلیمان میں ہر ممکن مخالفت پہلا قدم ہے۔ حکومت کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ فسطائی رویہ ترک کر کے اس بجٹ کے عوام اور معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات اوراس سے جڑے حزبِ اختلاف کے لائحہ عمل پر سنجیدگی سے غور کرے وگرنہ سیاسی کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی اپنے لئے مشکلات پیدا کرسکتی ہے! دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :