زندگی کیا ہے؟

ہفتہ 21 نومبر 2020

Kainat Mukhtar

کائنات مختار

زندگی کیا ہے؟ زندگی خدا کا تحفہ ہے جو ہمیں ملا ہے۔ ہم اس دنیا میں آتے ہیں اور زندگی کو دیکھتے ہیں جو تخلیق خدا ہے۔ جس نے ہمیں پیدا کیا اور یہ دنیا بنائی ہے۔ لیکن زندگی کو دیکھنے کا نظریہ جو ہر انسان کا ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ زندگی وہ سفر ہے جس پر ہم سب چل رہے ہیں اور ہمارے بعد بھی لوگ اس پر چلیں گے۔ زندگی پر کسی انسان کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

کیوں کے یہ وہ سفر ہے جس کو ایک دن ختم ہو جانا ہے۔ یہ دنیا فانی ہے۔ اس میں ہر چیز خدا کی تخلیق ہے۔ یہ سورج یہ چاند یہ آسمان و زمین سب اس کے حکم کی محتاج ہیں ایک پتہ بھی اس کی مرضی کے بنا نہیں حل سکتا تو یہ انسان کیا چیز ہے جو خود خدا بنا پھرتا ہے۔
اس دنیا کی ہر چیز اس بات کی گواہ ہے کے وہ بے مقصد اس دنیا میں نہیں آئی ہر چیز اپنے دائرہ میں گھوم رہی ہے۔

(جاری ہے)

کوئی بھی اس میں خلل پیدا نہیں کر رہا لیکن غور کرو تو انسان ہی جو اس میں بگاڑ کا سبب بن رہا ہے اپنی حوس مٹانے کے لیے انسان کا شکار کرتا ہے اپنا غصہ کم کرنے کے لیے دوسرے انسان کو نقصان پہنچا رہا ہے ۔ ا نسان جو چاہے کرتا پھرتا ہے۔ کبھی دیکھا ہے کسی مچھلی کو زمین پر پھرت ہوئے نہیں صرف انسان ہی ہے جو بگاڑ پیدا کر رہا ہے ۔
ہمیں اگر کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑ جائے تو ہم زندگی کو قصور وار بنا دیتے ہیں اور شکوے کرنے لگ جاتے ہیں۔

لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ایک امتحان ہے۔ اور یہ وقت بھی ختم ہو جائے گی۔ ہم کسی حال میں اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے جو ہر چیز پر قادر ہے۔ جو رات کے بعد صبح کرتا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے ہر اندھیری رات کے بعد صبح ضرور ہوتی ہے۔ اسی طرح ہماری زندگی کی مشکلات بھی ختم ہو جائیں گی۔ ان لوگوں کو دیکھو جو مشکل حالات میں بھی ہار نہیں مانتے بلکہ محنت کرتے ہیں سڑک پر چلتے کبھی آس پاس لوگوں کو دیکھو تو پتا چلتا ہے کہ ہم کس قدر خوش نصیب ہیں کہ ہمیں اللہ نے ہر نعمت سے نوازا ہے۔

اس دنیا میں ہمارے آس پاس ایسے لوگ موجود ہیں جن کے پاس کھانے کو روٹی نہیں ہے، جو کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہیں جس کو دیکھ کر دل۔کانپ جاتا ہے ، کچھ لوگ کسی معذوری میں مبتلا ہیں۔ وہ بھی تو زندگی گزار رہے ہیں اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں ۔
ہم لوگوں کو دیکھ کر حسد کرتے ہیں ان کی خوشی میں خوش ہونے کے بجائے ان سے جلتے ہیں اور اسی آگ میں ساری زندگی جلتے ہیں اور اسی آگ میں جلتے ہوئے ہم وہ جرم کرتے ہیں کہ جس سے انسان کو انسان نہیں کہا جا سکتا ہم روز سنتے ہیں بیٹے نے باپ کو چاچا نے بھانجے کو جائیداد کی خاطر قتل کر دیا کچھ لوگ پیسوں کے کچھ اویض راہ چلتے کسی کو بھی قتل کر دیا۔

آخر انسان کیا اس زندگی میں صرف دولت،گھر،مال وغیرہ کے لیے آیا ہے اور اسی کے پچھے بھاگ رہا ہے۔ اور اس کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔
اسی دولت پہ انسان کو اتنا غرور ہے کہ وہ اس کے آگے کسی کو کچھ سمجھتا ہی نہیں ہے اپنے سے کم کے ساتھ بُرا سلوک کرتا ہے۔ کسی ملازم سے کچھ ٹوٹ جائے تو اُس پر ظلم کرتا ہے ۔ صرف اس لیے کے اس کے پاس اُتنی دولت نہیں۔


زندگی کو دیکھو دوسروں کے لیے خوش کا باعث بنو دوسرے کے لیے آسانی پیدا کو زندگی بہت خوبصورت تحفہ ہے جو رنگوں سے بھرپور ہے زندگی کو محسوس کرو اللہ کی بنائی کر چیز میں پرندوں کی اڑان،پھولوں کی خوشبو، دریا میں بہتا پانی، چشمے ،پہاڑ ،آسمان زمین سب ہمیں خوشی دیتے ہیں جب خدا کی بنائی ہر چیز ہمیں خوشی دیتی ہے تو ہم انسان کیوں ایک دوسرے کے دشمن بنے پھرتے ہیں کیوں زندگی کو اپنے لیے اور دوسروں کے لیے مشکل بناتے ہیں اس گھر،دولت، گاڑی یہ سب آنی جانی چیز ہے کبھی کم کبھی زیادہ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے وہ ہی تمہیں رزق دے گا ۔

رزق کا وعدہ اللہ نے کیا ہے وہ پتھر میں ایک چونٹی کو بھی رزق دیتاہے۔
اے ابن آدم!غرور کس چیز کا ہے۔ مٹی سے بنا مٹی میں ہی مل جائے گا۔ جو بھی کمایا سب یہی رہ جائے گا لے جائے گا جو ساتھ وہ ہیں تیرے عمال کر فکر اس دن کی جس دن دے گا تو حساب۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :