
عادی سے قیدی تک
اتوار 19 مارچ 2017

خالد ارشاد صوفی
(جاری ہے)
ان کو استعمار کے نئے ہتھکنڈے قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ ویسے بھی پچھلے کچھ عرصے میں امریکہ اور اس کے حامی ممالک کے طریق کار میں تبدیلی آئی ہے‘ براہ راست حملہ کرنے کے بجائے داخلی اختلافات کو ہوا دینا۔ مشرق وسطیٰ کا عرب بہار انقلاب اس کی ایک مثال ہے‘ جس میں بغیرکسی حملے کے مغرب نے اپنے مقاصد حاصل کئے۔ ایسے انقلابات کے لئے معلومات مذکورہ بالا جدید ترین آلات سے ہی اخذ کئے جاتے ہوں گے۔
اور یہ معاملہ سی آئی اے تک ہی محدود نہیں بلکہ اگر آپ آن لائن خرید و فروخت کرنے والی کوئی ویب سائٹ کھولیں اور اس کے ذریعے کچھ ڈاؤن لوڈ یا اپ لوڈ کرنے کی کوشش کریں تو اس پر بھی آپ کے پرسنل ڈیٹا تک رسائی کے لئے کہا جاتا ہے۔ بندہ پوچھے کسی کے پرسنل ڈیٹا سے اس ویب سائٹ کا کیا کام؟کسی بھی ویب سائٹ پر جب آپ کلک کر دیتے ہیں یعنی اپنی ذاتی معلومات تک رسائی دے دیتے ہیں تو پھر وہ آپ کی مستقل نگرانی پر لگ جاتی ہے۔ وہ آپ کا ڈیٹا بھی اٹھا سکتے ہیں اور کانٹیکٹ نمبرز بھی۔حتیٰ کہ یہ بھی آپ کہاں کہاں موو کر رہے ہیں۔ کس سے ملے ہیں اور کیا بات چیت ہوئی۔ اور یہ سارا کام وہ اس وقت بھی کرتے رہتے ہیں‘ جب آپ کا موبائل فون ‘ ڈیسک ٹاپ یا لیپ ٹاپ بند بھی ہوں۔ بیسیوں ویب سائٹس اور ایپس ایسی ہیں‘ جو آپ کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کر لیتی ہیں۔ اگر آپ کا موبائل فون یا لیپ ٹپ بند ہو‘ تو بھی اس کا مائک تو کھلا رہتا ہے اور جن ویب سائٹس کو آپ نے رسائی دے رکھی ہے‘ وہ بند حالت میں بھی آپ کی گفتگو سن سکتے ہیں۔ آج کے دور میں سب کچھ ممکن ہو گیا ہے۔ ایسی ٹیکنالوجی ایجاد کی جا چکی ہے کہ لاکھوں‘ کروڑوں افراد کی کئی کئی گھنٹوں کی گفتگو کو محض ایک چھوٹی سی چپ میں سٹور کیا جا سکتا ہے۔جب سیلولر نظام تھا تو چند ماہ کے بعد پُرانا ڈیٹا صاف کرنے کی ضرورت ہیش آتی تھی‘ لیکن جب سے اینڈرائڈ سسٹم پر انحصار بڑھایا گیا ہے‘دہائیوں کا ڈیٹا سٹور کرنے کی گنجائش پیدا ہو چکی ہے۔
سی آئی اے ہو یا کوئی اورادارہ ‘ گروہ یا افراد میرے خیال میں کسی کو کسی کے نجی معالات میں دخل دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ٹھیک ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے کریمینلز کا ڈیٹا اکٹھا کر سکتے ہیں اور انہیں اس کی اجازت ہونی بھی چاہئے‘ لیکن اس طرح ہر کسی کی ذاتی اور نجی زندگی میں جھانکنا‘ کسی طور ایک اچھا فعل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایک ایسے شخص کی نگرانی کا کیا جواز ہے‘ جو اپنی زندگی پہلے ہی گناہ اور ثواب کو مدنظر رکھ کر گزار رہا ہے۔ اور مسلمانوں کی بات کی جائے تو ان کا عقیدہ یہ ہے کہ منکر نکیر ان کی ہر حرکت کو نوٹ کر رہے ہیں‘ ان پر نگرا ن موجود ہیں‘ لیکن وہ خدائی نظام ہے۔ یہاں تو جدید ٹیکنالوجی نے انسان کو یرغمال بنا لیا ہے۔ ایک طرح سے اپنا قیدی بنا لیا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ آپ پھجے کے پائے کھانے جائیں تو اس روز دنیا کی کم از ک پچاس کمپنیوں کو پتا ہو گا کہ آپ کہاں گئے تھے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پہلے لوگو ں کو جدید ٹیکنالوجی کا عادی بنایا گیا اور پھر اسی ٹیکنالوجی نے ہمیں اپنا قیدی بنا لیا ہے۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ چند سال پہلے موبائل یا انٹرنیٹ وغیرہ سے آپ کا کتنا واسطہ تھا اور آج آپ فیس بک کھولے بغیر اور اسے اپ ڈیٹ کئے بغیر کتنے دن گزار سکتے ہیں؟ چند روز تو بڑی دور کی بات آپ شاید چند گھنٹے بھی اس کے بغیر نہیں رہ سکتے ہوں گے۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس ٹیکنالوجی نے آپ کو اپنا کتنا مرہون منت یعنی ایک طرح سے اپنا قیدی بنا لیا ہے۔
صدرٹرپ نے وکی لیکس کے تازہ ترین انکشافات پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا‘ جس کی بنیادی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ چونکہ ٹرمپ سی آئی اے کو رگیدتے رہتے ہیں‘ اس لئے وہ تو ان انکشافات پر خوش ہوں گے؛ لیکن کیا باقی دنیا اپنی نجی زندگی کی پرائیویسی تباہ ہونے پر کوئی احتجاج نہیں کرے گی؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد ارشاد صوفی کے کالمز
-
”کون لوگ اوتُسی“
جمعہ 3 نومبر 2017
-
عمران خان کو حکومت مل جائے تو…؟؟؟
جمعرات 26 اکتوبر 2017
-
مصنوعی ذہانت ۔ آخری قسط
بدھ 18 اکتوبر 2017
-
کیریئر کونسلنگ
اتوار 17 ستمبر 2017
-
اے وطن پیارے وطن
بدھ 16 اگست 2017
-
نواز شریف کا طرز سیاست
ہفتہ 12 اگست 2017
-
پی ٹی آئی کا المیہ
منگل 8 اگست 2017
-
اب کیا ہو گا؟
بدھ 2 اگست 2017
خالد ارشاد صوفی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.