”کون لوگ اوتُسی“

جمعہ 3 نومبر 2017

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

ان دنوں منیر نیازی بڑے یاد آ رہے ہیں:
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
اور وجہ ہے سوشل میڈیا‘ جس پر ان دنوں ایک ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ شور اتنا بلند ہے کہ کوئی آواز واضح سنائی نہیں دیتی اور شعور اتنا پست کہ ہر سوچ پاتال میں گری محسوس ہوتی ہے۔ اگر تو سنجیدگی سے دیکھا اور پرکھا جائے تو یہ میڈیم ایک نعمت ہے‘ ایک فضا‘ ایک راستہ‘ ایک منزل‘ لیکن کیا کیا جائے کہ ہم نے کبھی کسی چیز کو سنجیدہ لیا ہی نہیں‘ کبھی سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں۔

یہ اندازہ ہی نہیں لگایا کہ اس کے منفی اور مثبت پہلو کیا ہیں اور ہم اسے اپنی بہبود کے لئے کیسے استعمال کر سکتے ہیں۔ باقی چیزوں کو چھوڑیں‘ صرف میڈیا کی بات کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

کمپیوٹر آیا تو ہم نے اسے سکول‘ کالج اوور دفتری کاموں کے لئے کم اور موویز دیکھنے کے لئے زیادہ استعمال کیا۔ انٹرنیٹ آیا اور گوگل یا یوٹیوب جیسی سہولت دستیاب ہوئی تو پتا چلا کہ ہمارا ملک سب سے زیادہ نیوڈ سائٹس کھولنے اور ملاحظہ کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔

موبائل آیا تو ہم نے اسے رابطے کا ایک اہم ذریعہ سمجھ کر اس کا مثبت استعمال کرنے کے بجائے بے جا اور بے مقصد فون کالوں‘ ایس ایم ایس‘ ایم ایم ایس کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ فراڈ مافیا بھی حرکت میں آیا اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ جیتو پاکستان ٹی وی شو اور 50روپے کا بیلنس لوڈ کروا دیں جیسے دغا بازی پر مبنی ایس ایم ایس کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔

اس میڈیا کو اشتہار بازی کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر میں یہ ہوتا ہے کہ کوئی نئی چیز‘ کوئی نئی ایجاد‘ کوئی نئی سہولت یا ابلاغ کا کوئی نیا طریقہ متعارف ہو تو لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے اور لطف اندزو ہوتے ہیں‘ لیکن ہمارے ہاں اس کو جبلتوں اور خصلتوں کے اظہار کا ذریعہ بنا لیا جاتا ہے۔ ہم خود پر اور ایک دوسرے پر تو آشکار ہوتے ہی ہیں‘ دنیا بھی ہمارے باطن سے واقف ہو جاتی ہے کہ ہم اصل میں ہیں کیا۔

دنیا بھر میں نجی ٹیلی وژن چینل ابلاغ اور معلومات کا بہترین ذریع ہیں‘ لیکن ایک ڈیڑھ عشرہ قبل جب ہمارے ہاں نجی چینل شروع ہوئے تو بریکنگ نیوز کی ایک ایسی دوڑ شروع ہوگئی کہ اب تک تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اس حوالے سے ہم اتنے نیچے آ چکے ہیں کہ اگر کہیں کویہ بارش اور کیچڑ میں پھسل کر گر جائے تو ہمارے ہاں یہ بھی بریکنگ نیوز بن جاتی ہے۔

خبر اور خبریت بہت پیچھے چلی گئی‘ اس کی جگہ ہیجان خیزی‘ تماشا گری اور تماشا بازی نے لے لی۔ہمارا مذہب محبت اور سلامتی کا پیغام ہے‘ لیکن کچھ بھٹکے ہوئے گروہوں نے مذہب کے نام پر نفرتیں پروان چڑھائیں اور بے گناہوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے۔
بات سوشل میڈیا سے شروع ہوئی تھی‘ جس نے ہمیں بالکل ہی بے لگام کردیا ہے۔ ٹھیک ہے اس کا کچھ اچھا استعمال بھی ہو رہا ہے‘ لیکن بقدر اشک بلبل‘ زیادہ تر بے ہودگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔

اپنے دلوں اور ذہنوں کی گندگی کو لفظوں اور تصویروں کا روپ دے کر سوشل میڈیا پر تھونپ دیتے ہیں۔ اور اس مقصد کے لئے اپنی فیک آئی ڈیز بناتے ہیں۔ لڑکا خود کو لڑکی ظاہر کرتا ہے اور لڑکی خود کو لڑکا۔ اور ہمارا یہ خیال ہوتا ہے کہ جو کچھ آپ سوشل میڈیا پر پیش کریں‘ اس کو من وعن تسلیم بھی کیا جائے۔ میرے خیال میں سوشل میڈیا ایک نعمت ہے۔ نعمتِ غیر مترقبہ کہ ہم بغیر سفر کئے‘ بغیر کچھ خرچ کئے اور بغیر کسی سے رابطہ کئے بہت کچھ جان لیتے ہیں یا جان سکتے ہیں۔

لیکن ہم نے اسے لڑائی جھگڑوں ‘ دنگوں اور منافقتوں کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔سوشل میڈیا دراصل سوشلائزیشن کے لئے بنایا گیا‘ لیکن ہم نے اسے کرمنلائزیشن اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ مناظروں کے لئے استعمال کرنے لگے۔ کوئی بھی آدمی جو بات کھلے عام اور واشگاف کرنے کی ہمت و جرات نہیں رکھتا وہ سوشل میڈیا کی آڑ لیتا ہے۔

بعض اوقات سوشل میڈیا پر ایسے ایسے نازک معاملات پر بحث ہوتے ملتی ہے کہ بندہ لکھنے یا بلاگ بنانے والے کی جرات بلکہ جسارت پر حیران رہ جاتا ہے۔ یہ میڈیا دنیا بھر میں حصولِ مسرت و معلومات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے‘ ہمارے استعمال نے اسے ہمارے لئے وبال جان بنا دیا ہے۔
مجھے یہ ساری باتیں لکھنے اور قارئین کے ساتھ اپنے احساسات و جذبات شیئر کرنے کا تکلف گزشتہ روز پیش آنے والے ایک واقعہ کی وجہ سے کرنا پڑا ہے۔

اپنی شرمین عبید چنائے تو تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ جی وہی‘ جس نے اپنی پہلی ڈاکومینٹری ”سیونگ فیس “ اور دوسری ڈاکومینٹری فلم ”اے گرل ان دا ریور“ پر پاکستان کے لئے آسکر ایوارڈ جیتے۔ ہوا یہ کہ شرمین کی بہن دو تین روز قبل علاج کی غرض سے آغا خان یونیورسٹی کی ایمرجنسی میں گئی۔ وہاں جس ڈاکٹر نے ان کا چیک اپ کیا‘ اس سے شرمین کی بہن کی علیک سلیک ہو گئی۔

دوسرے روز اس ڈاکٹر نے فیس بک پر شرمین کی بہن کو فرینڈ رویکوئسٹ بھیج دی۔ یہ بات جب شرمین کو پتا چلی تو اس نے سماجی ابطوں کی اپنی ویب سائٹ پر لکھا: پاکستان میں کوئی حد نہیں ہے‘ گزشتہ روز میری بہن آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کی ایمرجنسی میں گئی اور جس ڈاکٹر نے اس کا علاج کیا‘ بعد میں اسے فیس بک پر فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دی۔ شرمین نے فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنے کو ”ہراساں کرنے“کا عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس ڈاکٹر سے نمٹ لیں گیاور ڈاکٹر پر مقدمہ کردیا۔

نتیجہ یہ نکلا کی اس نجی ہسپتال کی انتظامیہ نے مذکورہ ڈاکٹر کو نوکری سے فارغ کر دیا ۔ اب شرمین کی اس حرکت کے بعد سماجی ویب سائٹ یعنی سوشل میڈیا پر ہی ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے کہ آیا فیس بک پر فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنا ”ہراساں“کرنے کے مترادف ہے اور کیا شرمین کا ٹویٹر اس نے فنی قد سے چھوٹی حرکت نہیں؟ اس بحث کا کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ تو اس جاری بحث کے اختتام پر ہی پتا چلے گا؛ البتہ میں نے جب سے یہ خبر سنی ہے‘ اس سوچ میں مبتلا ہوں کہ میرے سینکڑوں دوست اور کچھ انجانے لوگ بھی اب تک مجھے ”ہراساں“ کرے رہے ہیں‘ یعنی فیس بک پر مجھ سے دوستی کرنے کے خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

ان میں سے کچھ کی التجا میں نے قبول کر لی اور کچھ کو نظر انداز کر دیا۔ یہی کام شرمین کی بہن بھی کر سکتی تھی۔ اس پر اتنا شور مچانے کی کیا ضرورت تھی؟ ”ہراساں“ کی یہ نئی تعریف کم از کم مجھے تو ہضم نہیں ہو پا رہی۔ سوچتا ہوں ہم کدھر جا رہے ہیں اور ہماری منزل کیا ہو گی؟ ایک طرف” سیونگ فیس“ اور ”اے گرل ان دا ریور“ جیسی ڈاکومینٹریاں اور دوسری طرف اتنی تنگ نظری۔ دوسروں پر تنقید اچھی بات ہے لیکن ہمیں کبھی کبھی سماجی ویب سائٹ کے آئینے میں اپنا چہرہ بھی دیکھ لینا چاہئے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم جب بھی اس میں اپنا چہرہ دیکھیں گے تو کہیں سے کوئی غائبی آواز آئے گی ”کون لوگ او تُسی“؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :