
کیریئر کونسلنگ
اتوار 17 ستمبر 2017

خالد ارشاد صوفی
(جاری ہے)
یہ محض احمد کی ہی کہانی نہیں‘ مناسب اور بر وقت کیریئر کونسلنگ نہ ہونے کے باعث اور انٹری ٹیسٹ کے عذاب سے ہمارے ملک کا ہر دوسرا نوجوان اسی طرح کے حالات کا شکار ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو بچہ اچھا فارماسسٹ بن سکتا ہے‘ وہ انجینئر بن جاتا ہے اور جسے ایک اچھا اینکر ہونا چاہئے‘ وہ اپنے ہاتھوں میں ایم بی بی ایس کی ڈگری تھامے پھرتا ہے۔ ذرا میڈیا پر ایک نظر ڈال لیں۔
درست اور موزوں کیریئر کا انتخاب ہر طالب علم کا حق ہے۔ کہ وہ اپنے طبعی رجحانات اور آدرشوں کے مطابق اپنے پیشے کا انتخاب کرے۔ یہ بلا شبہ طالب علم کی زندگی کا ایک اہم ترین فیصلہ ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کہ انہیں اس سلسلے میں کوئی رہنمائی نہیں ملتی اور وہ اپنی سوچ کے مطابق ٹامل ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب مضامین اور پیشوں کی تعداد محدود تھی۔ اب شعبوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہو چکا ہے اور اس لحاظ سے والدین اور طلبہ کی مشکلات بھی بڑھ گئی ہیں۔اگرچہ کچھ عرصہ پہلے انٹرمیڈیٹ کی سطح پر بچوں کو کیریئر کونسلنگ کی سہولت فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن ابھی تک سرکاری تعلیمی اداروں ‘ حتیٰ کہ متعدد نجی تعلیمی اداروں میں بھی اس سلسلے میں کوئی ٹھوس کام نہیں کیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں کیریئر پلاننگ کے لئے مارکیٹ کی ضرورت، تعلیمی قابلیت، والدین کا دباوٴ، دوستوں کی رائے، مضامین کے سکوپ اور سب سے آخر میں ذاتی رجحان کو مد نظر رکھا جاتا ہے حالانکہ ذاتی رجحان کو سب سے اہمیت اور اولیت دی جانی چاہئے‘ تبھی ملک کو ایک بہترین پروفیشنل دینے کے سلسلے میں پہلی اینٹ رکھی جا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر طلبہ کالج یا یونیورسٹی تعلیم (بی اے ،ایم اے) کے بعد کیریئر پلاننگ کی سوچتے ہیں، حالانکہ کیریئر پلاننگ کا عمل سکول کے دورسے ہی شروع ہو جانا چاہئے جب بچہ میٹرک پاس کرے تو اسے اپنے طبعی رجحان کے مطابق مضامین اختیار کرنے میں دشواری نہ ہو اور جب وہ انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرے تو اس کو معلوم ہو کہ اس نے کون سا شعبہ اختیار کرنا ہے اور کس طرح اپنا کیریئر بنایا ہے۔ سکول اور کالج کی سطح پر طلبہ کی دلچسپیوں، سرگرمیوں‘ صلاحیتوں اوررجحانات و میلانات کا جائزہ لیے بغیروالدین کی طرف سے از خود اور بلا سوچے سمجھے کیریئر کا انتخاب طلبہ کے مستقبل کو داوٴ پر لگانے کے مترادف ہوتا ہے۔
میرے خیال میں کیریئر کونسلنگ کے سلسلے میں سب سے پہلا کردار اور ذمہ داری والدین کی ہوتی ہے۔ بچے کی بدقسمتی کا آغاز سکول کے زمانے سے ہی اس وقت ہو جاتا ہے‘ جب والدین اپنی سماجی حیثیت اور معاشی سٹیٹس کو مدنظر رکھے ‘ اور یہ سوچے سمجھے بغیر کہ انہوں نے اپنے بچوں کو کیا بنانا ہے‘ کسی اچھے انگلش میڈیم سکول میں داخل کرا دیتے ہیں۔ آٹھویں تک بچہ اسی گومگو میں رہتا ہے کہ اسے کیا پڑھنا ہے اور کیا نہیں۔ اس کے بعد والدین بچے کو اے لیول یا اولیول کرنے کی ہدایت کرتے ہیں‘ جو کہ ایک بالکل ہی الگ قسم کے سلیبس اور رجحان والا کورس ہے۔ والدین کی حتی الوسع کوشش ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر بنے یا پھر انجینئر‘ چنانچہ اسے پھر کسی اچھے کالج میں داخلہ دلایا جاتا ہے اور اس کے لئے بہترین اکیڈمی یا پرائیویٹ ٹیوشن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس طرح بچہ نمبر تو اچھے لے لیتا ہے ‘ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ والدین اپنے بچے کے کیریئر کے لئے جس شعبے کا اہتمام یا خواہش کا اظہار کرتے ہیں‘ بچہ اس میں طبعی رجحان نہیں رکھتا اور ساری عمر ایک طرح کی کشمکش کا شکار رہتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ والدین بچے کے طبعی رجحانات اور میلانات کا جائزہ لیں اور مناسب وقت پر بہترین مشورہ بھی ضرور دیں لیکن اپنے کیریئر کا فیصلہ بچے کو خود کرنے دیں۔اگر والدین نے اپنے بچے کو وہ مضامین رکھوائے جن میں اس کی کوئی دلچسپی نہیں تھی‘ تو اس کی ناکامی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ ان صلاحیتوں کو اسی وقت ٹھیک طریقے سے بروئے کار لایا جا سکتا ہے‘ جب انہیں کے مطابق کسی پروفیشن کا انتخاب کیا جائے۔ حال ہی میں ہونے والی مردم شماری کے غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان کی آبادی 21کروڑ کے لگ بھگ ہے اور اس کا 60فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ کیا یہ بات لمحہ فکریہ نہیں ہونی چاہئے کہ آبادی کا اتنا بڑا حصہ ہونے کے باوجود نوجوان نسل مایوس نظر آتی ہے۔ان کے لئے کیریئر کونسلنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کے لئے سرکاری سطح پر کیریئر کونسلنگ کا اہتما م ہونا چاہئے۔ اس مقصد کے لئے کسی اضافی انفراسٹرکچر یا نفری کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ہر سکول میں اساتذہ کی خاصی بڑی تعداد ہوتی ہے۔ انہی میں سے کچھ پر مبنی ایک کمیٹی بنا دی جائے جو کلاسوں میں پڑھاتے وقت طلبہ کے ذہنی میلانات کا تجزیہ کرکے اس کا ایک ڈیٹا تیار کر لیں اور پھر اس کی بنیاد پر والدین کو بلا کر انہیں صورتحال سے آگاہ کر دیا جائے تو میرے خیال میں ایسی بہترین کونسلنگ کا آغاز ہو سکتا ہے‘ جو آگے چل کر والدین اور بچے‘ دونوں کے لئے مفید ثابت ہو۔ علاوہ ازیں‘ میں نے انہیں سطور میں پہلے بھی عرض کیا تھا کہ انجینئرنگ اور ایم بی بی ایس تو ٹھیک ہے‘ اچھے شعبے ہیں‘ لیکن سرکاری سطح پر دوسرے شعبوں کو پُرکشش بنانے کے لئے بھی اقدامات ہونے چاہئیں۔ ہمیں اچھے ڈاکٹر اور انجینئر تو چاہئیں ہی‘ لیکن اچھے فارماسسٹس‘ اچھے ٹیچرز‘ اچھے وکلا‘ لائق پائلٹوں اور دوسرے تمام شعبوں میں کام کرنے والے مستعد افراد کی بھی تو ضرورت ہے۔ یہ ضرورت تبھی پوری ہو سکتی ہے اگر ہم اپنے بچوں کے لئے بروقت اور بہتر کیریئر کونسلنگ کا اہتمام کریں۔
باصلاحیت مستحق طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے مالی اعانت اور فروغ تعلیم کے مختلف منصوبوں میں سرگرم ادارے کاروان علم فاؤنڈیشن نے نوجوانوں کو تعلیم اور پیشہ ورانہ زندگی کی بلامعاوضہ راہنمائی دینے کے لیے ”کیا پڑھیں؟ کہاں پڑھیں؟“ کے عنوان سے ایک منصوبہ شروع کیا ہے جس کے تحت ملک کے مختلف شہروں میں انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے شعبہ تعلیم کے انتخاب اور پیشہ ورانہ زندگی میں مواقعوں سے آگاہ کیا جارہاہے تاکہ قوم کا جوہر قابل تعمیر وطن کے قابل بنایا جاسکے اس سلسلے میں ویب سائٹ.com www.careerkarwanبھی جاری کی گئی ہے جہاں طلبہ و والدین راہنمائی لے سکتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد ارشاد صوفی کے کالمز
-
”کون لوگ اوتُسی“
جمعہ 3 نومبر 2017
-
عمران خان کو حکومت مل جائے تو…؟؟؟
جمعرات 26 اکتوبر 2017
-
مصنوعی ذہانت ۔ آخری قسط
بدھ 18 اکتوبر 2017
-
کیریئر کونسلنگ
اتوار 17 ستمبر 2017
-
اے وطن پیارے وطن
بدھ 16 اگست 2017
-
نواز شریف کا طرز سیاست
ہفتہ 12 اگست 2017
-
پی ٹی آئی کا المیہ
منگل 8 اگست 2017
-
اب کیا ہو گا؟
بدھ 2 اگست 2017
خالد ارشاد صوفی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.