
عمران خان کو حکومت مل جائے تو…؟؟؟
جمعرات 26 اکتوبر 2017

خالد ارشاد صوفی
(جاری ہے)
یہ باتیں اب کوئی راز نہیں رہیں۔ الیکٹرانک‘ پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے اور سینہ گزٹ کی وساطت سے یہ ساری کہانیاں اب عام لوگوں تک پہنچ چکی ہیں۔
دھرنا ون کے دوران بھی خان نے ایسی باتیں کیں کہ باقی سب کو ایک طرف کرکے بس اقتدار انہیں سونپ دیا جائے تاکہ وہ کوئی کرشمہ کر دکھائیں اور اس ملک کی حالت بہتر ہو جائے۔ہو سکتا ہے‘ لیکن لگتا نہیں۔ کیونکہ اس ملک کے مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ چار پانچ سال میں ان کا حل ہونا ایک طرح سے ناممکن ہے۔پھر بھی کیا خیال ہے‘ ایک بار اگر عمران خان کو وزارت عظمیٰ دے دی جائے تو کیا ہو؟
میرے خیال میں اس کے دو ممکنہ نتیجے سامنے آسکتے ہیں۔ پہلا‘ ملک کو واقعی ایک حقیقی قیادت مل جائے گی۔ ویسی قیادت جس کا خواب اس ملک کے عوام ستر برسوں سے دیکھ رہے ہیں اور جس کی تعبیر تاحال ندارد ہے۔ اس بات کے امکانات کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ عمران خان بھان متی کے اس سارے کنبے کو راہ راست پر لانے میں کامیاب ہو جائیں‘ جو کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑہ کے مصداق مختلف پارٹیوں کے بھگوڑوں پر مبنی ہے ‘ اور اس طرح ہمارا ملک ترقی راست کے لئے را ہ راست پر آ جائے۔ ہو سکتا ہے عمران خان حقیقتاً ملک سے کرپشن کا خاتمہ کر دے۔ دوسری سماجی برائیوں کو کم کر دے۔ درآمدات گھٹا کر برآمدات میں اضافہ کر دے۔ بھارت کے ساتھ تنازعات طے کرنے کی کوئی تدبیر کی جا سکے۔ کشمیر آزاد ہو جائے۔ پانی کے مسائل حل ہو جائیں۔ توانائی کا بحران ختم ہو جائے اور عوام کو چوبیس گھنٹے بلا تعطل بجلی ملنے گے اوراس کے نتیجے میں نہ صرف صنعت کا پہیہ دن رات رواں رکھا جا سکے بلکہ زرعی شعبے کو بھی تقویت ملے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دہشت گردی‘ فرقہ واریت‘ انتہاپسندی کا بھی کوئی حل خان کے ذہن میں ہو‘ وہ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کا بھی کوئی پلان رکھتے ہوں اور ملک و قوم کو قرں سے کی دلدل سے نکالنے کی منصوبہ بندی بھی انہوں نے کر رکھی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اقربا پروری‘ رشوت‘ سفارش‘ میرٹ کے خلاف ورزی اور کام چوری ختم کرنے کا بھی کوئی نسخہ رکھتے ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے دور اقتدار میں کسی روز ایسا سورج بھی طلوع ہو جائے جو روٹی دو روپے کی کر دے اور اس طرح ملک سے غربت کا نام و نشان مٹانے کے عمل کا آغاز ہو جائے۔ یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ وہ موسمیاتی تغیر وتبدل اور موحولیاتی کے ساتھ ساتھ آبی‘ ہوائی اور ذہنی آلودگی کو ناپید کرنے کی جرات بھی رکھتے ہوں۔ ان میں اتنی طاقت و قوت اور لگن بھی ہو سکتی ہے کہ ملاوٹ کا خاتمہ کر دیں اور ملک بھر میں بھینسوں اور گائیوں کا دودھ ملنے لگے‘ مشینوں کا نہیں‘ اور دودھ کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی دوسری اشیا میں ملاوٹ کیا ہوتی ہے اور کیسے ہوتی ہے‘ لوگ اس لعنت سے آشنا ہی نہ رہیں۔ عین ممکن ہے کہ بیمار اور لاغر جانوروں کی جگہ صحت مند اور تگڑے جانوروں کا گوشت ملنے لگے اور گدھوں کو صرف اور صرف باربرداری کرنی پڑے‘ لوگوں کے پیٹ کا دوزخ نہ بھرنا پڑے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جنگلات کے کٹنے کا سلسلہ بند کرا دیں اور یوں ہمارے ملک کی آبو ہوا بہتر ہو جائے (یہ بات یقیناً ممکن ہے کیونکہ عمران خان کی جماعت نے خیبر پختونخوا میں کروڑوں پودے لگا کر پاکستان نیا ریکارڈ قائم کیا ہے)ہو سکتا ہے وزیر اعظم بن کر وہ پورے ملک میں ہریالی کر دے۔یہ بھی ممکن ہے کہ وہ واقعی امریکہ کی دھمکیوں میں نہ آئے اور پاکستان کو افغانستان کی سٹریٹیجک ڈیپتھ کی دلدل سے نکال لے۔ انتظار کیا جا سکتا ہے کہ وہ زرعی پیداوار اتنی بٹھا لیں کہ نہ صرف پاکستان فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے خطرناک صورتحال سے نکل آئے بلکہ اس قابل بھی ہو جائے کہ اپنی زرعی پیدوار دوسرے ممالک کو برآمد کر سکے۔ہو سکتا ہے وہ شادی بیاہ کی تقریبات میں فضول خرچی کو روکنے میں کامیاب ہو جائے‘ موجودہ حکمران اپنے تمام تر دعووں کے باوجود جس میں کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔اور یہ امکان بھی موجود ہے کہ وہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی مستقل حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
اگر ایسا ہو جائے تو کمال ہو جائے۔ پاکستان دنیا کا میر ترین ملک بن جائے اور اس کے عوام غربت کے گھن چکر سے نکل آئیں۔لیکن ایسا کیسے ہو گا؟ اس کا جواب عمران خان ہی دے سکتے ہیں‘ جو گزشتہ ساڑھے چار برسوں سے بس ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ مجھے وزیر اعظم بنا دو۔بنا دو بھئی وزیر اعظم ۔ ہو سکتا ہے وہی ملک کو ترقی کی منزلوں کی طرف لے جا سکیں۔ اور ملک و قوم کی بدقسمتی سے اگر یہ سب نہ ہو سکا تو کم از کم یہ بھرم تو کھل جائے گا کہ خان بھی کچھ کرنے کے قابل نہیں‘ صرف نعرے لگا سکتا ہے۔باتیں بنا سکتا ہے۔ اس کا ایک اور نتیجہ یہ برآمد ہو گا کہ ملک کا ایک خاصا بڑا یعنی اکثریتی طبقہ کم از کم اس زعم سے نکل آئے گا کہ دوسرے حکمرانوں کے برعکس خان ملک کو ترقی دلا سکتا ہے اور اس طرح وہ کسی ڈھنگ کے کام پر لگ سکیں گے‘ خان کو اپنا رہنما تسلیم کرنا ترک کر دیں گے۔ ان پر یہ واضح ہو جائے گا کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ ستر برسوں سے ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگنے والے عوام ایک اور دھوکا کھانے سے محفوظ رہ سکیں گے۔ ٹرک ہے کہ کہیں رکتا ہی نہیں۔ جو حکمران بھی آتا ہے وہی پُرانا گھسا پتا وعدہ لے کر کہ عوام دو سال برداشت کریں‘ اس کے بعددودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ عوام پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو تو کئی کئی بار آزما چکے اور حقیقت یہ ہے کہ تھک چکے ہیں۔ انہیں واقعی کسی سہارے کی ضرورت ہے۔ اس طرح خان کی وزیر اعظم بننے کی حسرت بھی دور ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے؟ یہ مسائل کیسے حل کرنے ہیں‘ یہ خان جانے اور اس کے گرد اکٹھا ہونے والا بھان متی کا کنبہ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
خالد ارشاد صوفی کے کالمز
-
”کون لوگ اوتُسی“
جمعہ 3 نومبر 2017
-
عمران خان کو حکومت مل جائے تو…؟؟؟
جمعرات 26 اکتوبر 2017
-
مصنوعی ذہانت ۔ آخری قسط
بدھ 18 اکتوبر 2017
-
کیریئر کونسلنگ
اتوار 17 ستمبر 2017
-
اے وطن پیارے وطن
بدھ 16 اگست 2017
-
نواز شریف کا طرز سیاست
ہفتہ 12 اگست 2017
-
پی ٹی آئی کا المیہ
منگل 8 اگست 2017
-
اب کیا ہو گا؟
بدھ 2 اگست 2017
خالد ارشاد صوفی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.