
بھٹو
بدھ 5 اپریل 2017

خالد ارشاد صوفی
(جاری ہے)
پاکستان کی تاریخ میں بھٹو وہ واحد سیاست دان ہے‘ جو اکیلا آیا‘ اس نے سیاست میں خود کو منوایا‘ ایسی سیاسی پارٹی تشکیل دی‘ جس کا ایک پراپر برینڈ نیو منشور تھا اور جو آج بھی قومی سطح کی پارٹی کہلاتی ہے۔ اسی پارٹی نے عوام کو یہ شعور دیا کہ روٹی کپڑا مکان ان کا بنیادی حق ہے ‘ سب سے پہلے یہ ملنا چاہئے۔ پیپلز پارٹی کے بعد پاکستان تحریک انصاف ایسی پارٹی ہے جس کا ووٹ بینک اس کے منشور کی وجہ سے بڑھتا جا رہا ہے۔ ۔مسلم لیگ ن تو ہمارے سیاست دانوں کو پکی پکائی روٹی کی طرح ملی تھی‘ جس کے حصے بخرے کرنے اور نئے دھڑے بنانے کے سلسلے میں ہمارے سیاست دانوں نے اپنی پوری صلاحیتیں دکھائیں۔پکی پکائی روٹی سے یاد آیا کہ عوام کوسستی روٹی فراہم کرنے کا منصوبہ بھی سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے ہی متعارف کرایا تھا اس وقت پانچ روٹیوں کا پیکٹ سوا روپے میں ملتا تھا یعنی پچیس پیسے میں ایک روٹی۔ وہ روٹی توے پر گرم کرکے کھائی جاتی تھی اور اگر گھی لگا لیا جاتا تو مزا دوبالا ہو جاتا تھا۔ عوام کے فائدے میں شروع کیا گیا وہ روٹی پلانٹ کیوں بعد ازاں کیوں بند کر دیا گیا ‘ اس کی تحقیقات کرانے کی ضرورت بھٹو کو پھانسی چڑھا کر اقتدار کے مزے لوٹنے والوں میں سے کسی نے محسوس نہیں کی۔ غریب کی امنگوں‘ آرزوؤں اور آدرشوں کی طرح اب تو وہ روٹی پلانٹ بھی زنگ آلود ہو چکا ہو گا۔اور یہ بھی تو حقیقت ہی ہے کہ بھٹو نے عام آدمی کو جمہوریت کا سبق دیا۔ اسے بتایا اور آگہی دی کہ ووٹ کا استعمال کیسے کرنا ہے۔
پھر قادیانیت کے فتنے کو فرو کرنے اور بے حد لبرل ہونے کے باوجود شراب پر پابندی لگانے کے حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو کی خدمات کو کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ پھر 22تا 24فروری1974کو لاہور میں دوسری عالمی اسلامی کانفرنس کا انعقاد کرکے ذوالفقار علی بھٹو نے ایک ٹوٹے ہوئے ملک اور ذہنی طور پر منتشر عوام کو جو ایک نیا حوصلہ‘ ولولہ اور امنگ دی ‘ ان کے عزائم کو بیدار کیا‘ اس کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے طالب علموں اور مزدوروں کو جو طاقت دی‘ اس سے کوئی انکار کر سکتا ہے؟ مشرق وسطیٰ اور یورپ میں پاکستانیوں کے داخلے کے راستے کھول کر انہوں نے اس ملک کی معیشت کو جو استحکام دیا‘ اس کا فیض آج تک جاری ہے کہ پاکستان کے جی ڈی پی کا ایک خاصا بڑا حصہ آج بھی ان لوگوں کے بھیجے گئے پیسوں پر مشتمل ہوتا ہے‘ جو بیرون ملک کام کرتے ہیں اور زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں۔
شاید بہت تھوڑے لوگوں کو معلوم ہو کہ اپنی طالب علمی کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو نے قائد اعظم محمد علی جناح کو ایک خط لکھا تھا‘ جس میں انہوں نے تحریر کیا کہ ”جناب من! صوبہ سرحد میں جو سیاسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے اس نے مجھے اس قدر دلبرداشتہ کر دیا ہے کہ میرے اندر اپنے قائد کو خط لکھنے کی ہمت پیدا ہوئی ہے۔مسلمانوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ ہندو کبھی ہمارے ساتھ متحد نہیں ہوں گے۔ وہ ہمارے قرآن اور رسول کے بدترین دشمن ہیں۔ ہمیں فخر ہونا چاہئے کہ آپ مہمارے قائد ہیں اور آپ نے ہم سب کو ایک پلیٹ فارم اور ایک پرچم تلے متحد کر دیا ہے اور اب ہر مسلمان کی آواز ”پاکستان“ ہونا چاہئے۔ ہماری منزل اور مقصد صرف پاکستان ہے۔۔۔۔ابھی سکول کا ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں اپنے مقدس وطن کے قیام کے سلسلے میں کوئی مدد کرنے کے قابل نہیں ہوں‘ لیکن وقت آئے گا جب میں اپنے پاکستان کے لئے جان کی قربانی دوں گا۔۔۔۔ میں ہوں آپکا پیروکار ذوالفقار علی بھٹو“
یہ خط ذوالفقار علی بھٹو نے اپریل 1945میں لکھا تھا یعنی اس وقت ان کی عمر 17سال تھی۔ اور قائد اعظم نے انہیں جو جوابی خط لکھا اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ خط قائد اعظم کو 26اپریل کو موصول ہوا۔ یکم مئی1945کو قائد اعظم نے انہیں اپنے ہاتھوں سے جوابی خط لکھا‘ جس میں قائد نے انہیں سیاست کا مکمل مطالعہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے یہ نصیحت بھی کی کہ وہ اپنی تعلیم پر مکمل توجہ دیں۔
ذرا سوچئے کہ پاکستان کے لئے ایسی گداز سوچ اور جذبے رکھنے والا یہ رہنما کوئی ایسا کام کوئی ایسا اقدام کر سکتا ہے‘ جو پاکستان کے خلاف ہو یا جس سے اس ارض وطن کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔میرے خیال میں تو اس کا جواب نہیں ہے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ قائد اعظم کی نصیحت کے باوجود وہ برصغیر کی سیاست کے پیچ و خم اور سیاستدانوں کی فطرت کو سمجھنے میں ناکام رہے یا دوسرے لفظوں میں ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہو گئے اور ان بے رحموں نے انہیں تختہ دار پر پہنچا دیا۔
ویسے تو امکان نہیں‘ لیکن ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں نے بھٹو کو پھانسی پر چڑھانے میں کسی بھی قسم کا کردار ادا کیا‘4اپریل کو ہی ان کے ماتھے پر ندامت کا پسینہ ابھرتا ہو کہ کتنے بڑے لیڈر کو انہوں نے اپنی گھٹیا اور سطحی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا‘ جو اس ملک کی کایا پلٹ کے رکھ سکتا تھا اور جو پاکستان کو ترقی پذیر سے ترقی یافتہ بنا سکتا تھا۔ اگرچہ تاریخ کا پہیہ پیچھے کی طرف نہیں گھمایا جا سکتا کہ پلوں کے نیچے سے بہہ جانے والا پانی واپس نہیں لایا جا سکتا‘ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس تاریخی غلطی سے سبق سیکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کا از سر نو جائزہ لیا جاتا تاکہ آئندہ ایسی غلطیوں سے بچا جا سکتا‘ کیونکہ ویسی ہی غلطیوں ہم اب بھی دہراتے چلے جا رہے ہیں۔ بس امید ایک کرن ہے تو میثاق جمہوریت۔
جون 1978میں روزنامہ امن کی ایک شہ سرخی نظر سے گزری: بھٹو کو جلا وطن کرنے کا فیصلہ‘ جس کے جواب میں بھتو نے کہا تھ: مجھے کوئی جلاوطن نہیں کر سکتا‘ میں اسی مٹی کی پیدائش ہوں اور اسی میں دفن ہونا پسند کروں گا۔ اور تب سے بیٹھا میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر بھٹو کو پھانسی پر نہ چڑھایا جاتا اور وہ جلا وطنی قبول کرلیتا تو آج پاکستان کی تاریخ یقیناً مختلف ہوتی۔ یقینی طور پر مختلف۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد ارشاد صوفی کے کالمز
-
”کون لوگ اوتُسی“
جمعہ 3 نومبر 2017
-
عمران خان کو حکومت مل جائے تو…؟؟؟
جمعرات 26 اکتوبر 2017
-
مصنوعی ذہانت ۔ آخری قسط
بدھ 18 اکتوبر 2017
-
کیریئر کونسلنگ
اتوار 17 ستمبر 2017
-
اے وطن پیارے وطن
بدھ 16 اگست 2017
-
نواز شریف کا طرز سیاست
ہفتہ 12 اگست 2017
-
پی ٹی آئی کا المیہ
منگل 8 اگست 2017
-
اب کیا ہو گا؟
بدھ 2 اگست 2017
خالد ارشاد صوفی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.