جواب دہی

ہفتہ 2 فروری 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہمارا گمان ہے کہ نجی تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم بچوں کے والدین اگر ہوشربا فیس کے خلاف سراپا احتجاج نہ ہوتے تو معزز عدالت عظمیٰ از خود نوٹس کے ذریعہ اس میں کمی کا حکم صادر نہ فرماتی۔انہیں اس عمل پر مجبور کرنے والے قطعی ناخواہ افراد نہیں تھے بلکہ ان کا تعلق تعلیم جیسے مہذب اور پیغمبرانہ پیشہ سے تھا جو بخوبی جانتے تھے کہ بچوں پر اضافی مالی بوجھ پرلے درجے کی غیر اخلاقی حرکت ہے مگر اس کے باوجود اس کے مرتکب قرار پائے تاوقتیکہ کہ قانون کا کوڑا ان کی پیٹھ پے برس پڑا۔

انکی” اعلیٰ ظرفی“ دیکھیے کہ انہوں نے عدالتی حکم کے سامنے سرنگوں دل پر پتھر رکھتے ہوئے کیا، فیس میں کمی تو کردی مگر طلباء وطالبات کو فراہم کی جانے والی چند سہولیات واپس لے کر خبث باطن کو عیاں کردیا۔

(جاری ہے)


ہمارا حسن ظن ہے کہ جب انہوں نے ان اداروں کی بنیاد رکھی ہوگی تو اہل علاقہ کو بڑے سرسبز باغ دکھائے ہونگے، اس پیشہ کو عبادت قرار دے کر والدین کو داخلوں پر آمادہ کیا ہوگا ،ہماراقومی وطیرہ تو یہی ہے کہ ہمارے ہاں ہر کاروبار کا آغاز انسانی خدمت، عبادت کے نام سے ہوتا ہے پھر بتدریج اس جذبے میں دیگر آلائشیں عود آتی ہیں اور یہ نام نہاد انسانی خدمت اس مقام تک آن پہنچتی ہے کہ متاثرین کی چیخیں نکل جاتی ہیں یہ بیچارے والدین بھی اگر مالی بوجھ سے عاجز نہ آتے تو کبھی بھی احتجاج کی راہ اختیار نہ کرتے ،نجانے ان کی انتظامیہ کے کردا ر کے کیا اثرات طلباء و طالبات پر مرتب ہوں گے جو خود نسل نو کی تعمیر کا بیڑہ اٹھانے کے دعوی دار تھے یہ تو وہ ” مہذب بدعنوانی“ ہے جو منظر عام پے آگئی ورنہ ان ادارں میں ” ڈیل “ بزنس کا روپ دھار چکی ہے تعلیمی بنی تجارت کی عملی تفسیر کی شہادت ہی یہ ادارے ہیں۔


اک زمانہ تھا جب صحت کے شعبہ سے وابستہ افراد واقعتا اک مسیحا بن کر کارخیر میں شریک ہوتے ،مریضوں کی مشکلات کم کرکے ڈھیروں دعائیں سمیٹتے ،یہ وہ عہد تھا جب پوزیشن ہولڈرز طلباء وطالبات انسانی خدمت کے عملی جذبہ کے ساتھ اس شعبہ میں قدم رکھتے تھے آج نہ اس طرز کے خیالات کا اظہار نسل نو کی جانب سے کیا جاتا ہے نہ ہی مسیحا بننے کا جذبہ دکھائی دیتا ہے کیونکہ بھاری بھر فیسوں کے عوض پرائیویٹ طبی اداروں میں داخلہ کے خواہاں طلباء و طالبات اپنی خدمات کو ”نفع اور نقصان “کے ترازو میں تولتے ہیں ۔

انسانی خدمت ، ہمدردی غریب پروری جیسی اصطلاحات اپنی قدر آہستہ آہستہ کھو رہی ہیں وہ زمانہ اور تھا جب مکان کچے تھے اورلوگ سچے۔
سرمایہ دارانہ فکر نے تو ہمارے سماج کی فیبرکس ہی تبدیل کرکے رکھ دی۔ اب ہماری ہر تان اُ س پیسے پے آکر ٹوٹتی ہے جسے اکٹھے کرنے کی دوڑ میں بلا امتیاز شریک ہیں ،خدمت،عبادت کا حرف ہمارے معاشرے میں بدنامی کے اس مقام پے فائز ہے کہ اسکی آڑ میں رشوت کا بازار گرم کرنا زیادہ آسان ہورہا ہے یہی حال اس حلف کا ہورہا ہے۔


ہمارے عوامی نمائندگان انتخابات کے بعد منصب پر فائز ہوتے ہی حلف اٹھاتے اور خدمت کے دعوے دار بنتے ہیں اسکے بعد جو حشر حلف کا ہوتا ہے وہ ہمارے سامنے ہے دلچسپ امرتو یہ ہے کہ وہ اللہ کو گواہ کرکے اقرار کرتے ہیں اور پھر اسی رب کے سامنے انکی سرگرمیاں خود اپنے اقرار سے انحراف کی گواہی دے رہی ہوتی ہیں گویا عبادت ، انسانی ہمدردی، خدمت، حلف جیسے معتبر الفاظ جو اک صاحب کردار سے وابستہ کیے جاسکتے ہیں محض رسم بن کررہ گئے سماج اس بے حسی کے مقام پے آن کھڑا ہوا ہے کہ ہوتا ہے شب ورزو تماشہ میرے آگے کی صورت حال نمایاں ہورہی ہے ۔


ہمیں نت نئے انسانیت سوز واقعات سے سابقہ پیش آرہا ہے” لاء میکرلا ء بیکرز “بن رہے ہیں، معصوم بچوں کو اذیت ناک طریقہ قتل سے لیکر پیروں کے ہاتھوں خواتین کی بے حرمتی دن کی روشنی میں ہورہی ہے، گھناؤنے جرائم کی اک لمبی فہرست ہے جس کے ساتھ وہ تمام افراد بلحاظ عہدہ وابستہ ہیں جو سماج کی نظر میں اب تلک بھی” معزز “قرار پاتے ہیں۔
کیا ہمارا ماضی بھی ایسا ہی تھا جہاں جنگل سا قانون نافذ رہا ؟یہ سماجی منظر نامہ ان معصوم بچوں کے ذہن پے دستک دے رہا ہے جنہوں نے اس ماحول میں آنکھ کھولی ہے جہاں ملاوٹ کرنا، دھوکہ دینا، ناجائز منافع کمانا، ذخیرہ اندوزی کرنا ، کسی کی بے چارگی سے فائدہ اٹھانا، مجبوری کی حالت میں بلیک میل کرنا،خیرات کی آڑمیں مفادات اٹھانا ، غیر معیاری اشیاء کی فروخت کیلئے قسمیں اٹھانا اور ہر وہ غیر اخلاقی کام کرنا جسکا راستہ محض پیسے کا حصول کی طرف جاتا ہو، تو ایسے سماج میں اچھے انسان تو خال خال ہی دکھائی دینگے۔

یہ ناگہانی صورت حال نسل نو کے لئے تکلیف دہ ہے جن کو اس ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہے۔
ہمارا ماضی اقطعی ایسا نہ تھا، اس سرزمین پے وہ گوہر نایاب بھی رہے جنہوں نے اس ملک کی اک اک پائی کو امانت سمجھ کر خرچ کیا اعلیٰ اخلاق کے وہ نادر نمونے چھوڑے جو آج ہماری تاریخ کے سنہرے باب ہیں اس ملک کو اس باعزت مقام تک لانے میں ان کی خدمات اور جذبات شامل تھے جو ریاکاری سے پاک ، یہ محب وطن قانون سے زیادہ خدا سے خوف کھاتے تھے۔


 ہماری ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ ہم میں سے بعض” قومی خدمت “کے نام پر خزانہ لوٹتے اپنے اپنے سپو توں کے” درخشاں مستقبل“ کیلئے قوم کے بچوں کی قسمت سے کھیلتے رہے جب قانون کا شکنجہ ان کے گرد تنگ ہونے لگتا ہے تو مظلومیت کا ڈھونگ رچانا شروع کرتے پھر انھیں ر یاست سے لیکر ادارے بھی خطرے میں محسوس ہونے لگتے ہیں۔
نجانے آج تلک کتنے انسان مافیا کی ملاوٹ شدہ اشیاء سے بیمار ہوئے ،کچھ تو موت کے منہ میں چلے گئے ،کن کن افراد کو انھوں نے اپنی تجارت سنوارنے کے نام پر دھوکہ دیا ،محض لاچار افراد کی زمینوں پر قبضہ کرکے محلات تعمیرکیے ، بے گناہ انسانوں کو قتل کیا ان مکروہ جرائم میں شریک افراد بخوبی اپنے ماضی سے آشناء ہیں۔

لیکن قانون کی نظر سے اوجھل رہ کر اسے اپنے لیے اس مہلت کوغنیمت خیال کرتے ہیں یہ بھول جاتے ہیں کہ سب کچھ” لوح محفوظ“ میں رقم کیا جارہا ہے کیا یہ بھی سرکار کا کام ہے ؟ کہ ہر وقت دروغہ بن کر اس کے سر پر سوار رہے؟ اگر سرکار ان جرا ئم کی بیخ کنی کے لئے جوابدہ ہے ،تو ان افراد کو بھی تو احساس ندامت نہیں ہونا چاہئے۔
کہا جاتا ہے کہ اک سو برس قبل فرنگی دلی کی مسجد دیکھنے آیا سیڑھیوں پر مجبور بھکاری موجود تھے ان میں سے ایک نے ہاتھ دراز کیا فرنگی نے بٹوہ نکال کر اسے کچھ رقم دی۔

دوبارہ بٹوہ جیب میں ڈالنا چاہا مگر وہ نیچے گر گیا۔ ہجوم میں یہ فرنگی لاعلم رہا اور بھکاری نے بٹوہ اٹھا لیا چار دن کے بعد فرنگی واپس اس مسجد میں آیا تو بھکاری نے اسے پہچان لیا اور بٹوہ واپس کرتے ہوئے کہا یہ اس دن نیچے گر گیا تھا فرنگی نے کہا اتنی اشرفیاں دیکھ کر تمہاری نیت نہیں بگڑی۔ بھکاری نے جواب دیا بگڑی تھی مگر جوابدہی کا خیال آیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سامنے نبی آخرالزماں کی گردن نہ جھک جائے کہ ان کے امتی نے عیسائی کی اشرفیاں ہتھیا لیں اس کے عوض بھکاری نے انعام قبول کرنا بھی پسند نہیں کیا۔ مال و متاع سے محروک بھکاری کا احساس جواب دہی ان تعلیم یافتہ طبقہ سے تو بہتر تھا جو والدین کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کا مرتکب ہوا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :