عید سعید

منگل 18 مئی 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

برُا ہو اس کرونا کا جس نے عوام کی دوسری عید بھی پھیکی کر دی ،نہ دستور کی پابندی ممکن نہ ہی رِسم ُدنیا نبھائی جا سکے گی اوپر سے مشیر اطلاعات نے پریس کانفرنس کر کے ایسی دبنگ وارننگ دی کہ جذبات ہی ٹھنڈ ے کر دیئے، ورنہ کسی نہ کسی کے ساتھ تو معانقہ اور مصافحہ ہو ہی جاتا، ماسک لگانے کی کپتان نے اپیل کر کے ہمیں منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں چھوڑا،اگر یہ پابندی صرف مردوں تک محدود رہتی توپھر بھی ٹھیک تھا صنف نازک کے لئے حکم جاری کر کے ہماری مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے،اب یہ دھڑکا لگا رہے گا کہ جس کو عید مبارک دی ہے یہ گھر والی تھی یا اس کی خالہ،دیہات میں تو بہرحال اندازہ ہو جاتا ہے اصل مشکل تو شہروں میں ہوتی ہے ۔


ہمیں تو انکا غم کھائے جارہا ہے جو عید پر بائیک کے سلنسر نکال پر روڈ پر عوام کے لئے اذیت کا سماں پیدا کرتے تھے اِنکی عید اس کے بغیر کیسے گذرے گی،وہ جو دیہاتوں سے پیسہ اکٹھے کر کے نوجوان شہرکے پارکوں کا رخ کرتے تھے، عید کا دن انکاکیسے کٹے گا، عید تو بچوں کی ہوتی ہے ،جو سارا دن عیدی اکٹھی اور خرچ کرنے میں نکال دیتے ہیں، کھیل کود میں تب مصروف ہوتے ہیں جب یہ ختم ہوتی ہے، لاک ڈاؤن نے اِن سب کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا ہے،اس لعنت کی آمد سے قبل نجانے کون کون سے منصوبے تھے جو اس عید پر پایہ تکمیل کو پہنچنے تھے مگر ادھورے رہ گئے،عید کی ایک اچھی رو ایت رشتہ داروں کے ہاں جانا بھی ہے،بالخصوص بچوں کا ننھیال جانا تو اس شوہر کے لئے عید ہی کا درجہ رکھتا ہے جس کی زوجہ محترمہ کم از کم ایک ہفتہ کے لئے رخت سفر باندھ لیتی ہے لیکن اس ناسور نے تو خون بھی سفید کر دیئے ہیں، سوشل میڈیا کے اس عہد میں لمحہ بھر خبر سے میزبان نہ صرف چوکنا ہو جاتے ہیں بلکہ روانگی سے قبل ہی پیغام ملتا ہے کہ محلہ بھر میں کرونا ہے عافیت اسی میں کہ ارادہ ترک کر دیں،اب جائیں تو جائیں کہاں والا معاملہ درپیش ہوتاہے۔

(جاری ہے)


ماضی کی عیدین سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں جب اس طرح کی بیماریوں کا وجود تک نہ تھا،محلہ کی طرح دل بھی قریب ہوتے تھے،گھروں میں مہمانوں کی آمد کا سلسلہ نماز کی ادائیگی کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا تھا،گلے ملنے کی روایت انتہائی پختہ تھی بعض نے تو صرف عید کے عید ملنے کی رسم ہی کو عین” اسلام“ خیال کرتے تھے،بچے، بڑے، مرد خواتین اس موقع کو غنیمت جان کر جی بھر کے ملتے تھے، کوئی سرکاری پروانہ بھی جاری نہ ہوتا نہ ہی کسی پابندی کا سامناہوتا بلکہ گلے نہ ملنے کا شکوہ ان خطوط میں کیاجاتا تھا جو عید کے بعد تحریر ہوتے ،کچھ” پسڈی “قسم کے رشتہ دارتو بچوں کے گلے نہ ملنے کا شکوہ والدین سے بھی کرتے تھے،اس روز نئے نئے پکوان ہر گھر کی زنیت بنتے ،اہل محلہ اپنے علاوہ دوسروں کے لئے بھی خاص ڈش تیار کرتے جو نماز عید کے
 محلہ بھر میں سپلائی کی جاتی، فریج جیسی” بدعت “تب ایجاد نہ ہوئی تھی ،شام کو پارکوں کا رخ، اور کلفی، دھی بڑے،فالودہ وغیرہ سے لطف اندوز ہو نا بھی عید کا حصہ ہو تا تھا، اس عہد میں فاسٹ فوڈز کی وباء نے شہروں میں قدم نہیں رکھا تھا، دیسی مزاج کے لوگ مقامی طور پر بنی اشیاء پسند کرتے تھے اس لئے بیماریوں کا بھی راج نہ تھا، دم توڑتی ہوئی عید کارڈ کی خوبصورت رسم اِسکو چار چاند لگا دیتی تھی۔


جب سے شہروں میں ماڈرن کالونیوں کی طرح ڈلی ہے، اس سے مکانیت نے بڑی مگر دل نے چھوٹی شکل اختیار کرلی ہے، وہاں کا کلچر تو سرے سے مختلف ہے، میل جول کو بھی اسٹیٹس کے ترازو میں تولا جاتا ہے ، یہ سوچ کر ملا جاتا ہے کہ ان سے ملنا کتنا فائدہ مند ہو گا، ایلیٹ کلاس کی بعض کالونیاں تو مذہبی تہوار پر بھی ” شہر خاموشاں“ کا منظر پیش کرتی ہیں۔
 البتہ دیہات کی عیدمیں آج بھی جوش و جذبہ پایا جاتا ہے،وہ تمام باسی جو بیرون ملک یا دیگر شہروں میں بسلسہ روزگار سدھار جاتے ہیں اِنکی اولین کاوش ہوتی ہے کہ وہ عید اپنے پیاروں کے ساتھ گذاریں،نماز عید کا اکٹھ اِنکے لئے دوہری خوشی لاتا ہے ،جہاں سب سے ملاقات ہی نہیں بلکہ پُر جوش معانقہ بھی شامل ہوتا ہے، اس کے بعد احباب کے ساتھ چائے، پانی کا دور چلتا ہے، بچے اپنی اپنی کمپنی ڈھونڈ کر مصروف ہو جاتے ہیں، مہمانوں کی آمد آمد رہتی ہے،شام میں کسی نہ کسی کھیل کا اہتمام نوجوانان نے کیا ہو تا ہے،ماضی میں جب کرکٹ دیہات میں متعارف نہ ہوا تھا اس وقت کبڈی سب کا پسندیدہ کھیل ہوا کرتا تھا، یا کسی قریبی دیہہ میں بیلوں کی دوڑ بھی عید کے ایجنڈا میں شامل ہو تی تھی،بچوں کے لئے گلی ڈنڈا، پھٹو گرم بطور خاص گیم ہوتی تھی، جو ذرا زیادہ روشن خیال ہوتے انکی تفریحی شہر میں سنیما دیکھنا تھی، یا والدین سے چھپ کر وی سی آرسے فلم دیکھنا بڑا معرکہ تصور کیا جاتا تھا جبکہ خواتین امور خانہ داری کے بعد گاؤں میں کسی مقام پر اکٹھے ہو کر ”پینگ“ جھولتی تھیں،اِس خوبصورت عہد نہ صرف رشتوں کی پہچان ہوتی تھی بلکہ احترام کا مقدس رشتہ مردوخواتین کے مابین ہو تا تھا۔


اس نسل کاتذکرہ ہے جو گلوبل ویلج سے پہلے کی تھی جب بڑوں اور بچوں کے ہاتھ نہ تو موبائل آیا تھا، نہ ہی سوشل میڈیابرُی طرح ہماری حیاتی میں داخل نہ ہوا تھا، اِس میڈیا کی وساطت سے البتہ نسل نو ماضی کی درخشاں روایت سے آشنا کروایا جا رہا ہے جو اب قصہ پارینہ بن چکی ہیں،یہ عہد بھی ہماری تہذیب کی عکاسی کرتا رہاہے اس سے یہ بھی اخذ نہ کیا جائے کہ ہماری نگاہ میں موجودہ دور نقائص سے بھر پور ہے،آج کی نسل نو اس اعتبار سے خوش قسمت ہے والدین بیرون ملک بیٹھے اپنے بچوں، عزیزو اقرباء سے جدید ذرائع ابلاغ کی بدولت اپنے جذبات کا اظہار کر لیتے اور عید مل لیتے ہیں۔

ورنہ اِنکے خطوط ہی ملاقات کا ذریعہ ہوتے تھے۔زمانہ کوئی بھی ہر ایک کے الگ الگ تقاضے ہوتے ہیں،تاہم ہمیں اللہ تعالی کا شکر گذار ہو نا ہے جس نے عہد جہالت کی خرافات سے نکال کر عیدکے ذریعہ اظہار تشکر کا موقع فراہم کیا ہے کہ نماز عید کی ادائیگی سے اس نعمت کا شکر بجا لاتے ہیں کہ رمضان المبارک کی سعاعتوں میں اسکی قربت نصیب ہوئی اور گناہ سے توبہ کرنے کی توفیق تو ملی، فطرانہ کی ادائیگی سے اِن لغزشوں کی تلافی کرتے ہیں جو غیر دانستہ طور پر بشری کمزوریوں کے سبب ہو جاتی ہیں،اسکا نام ہی عید سعیدہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :