
کاش! ایسا نہ ہوتا
بدھ 1 ستمبر 2021

خالد محمود فیصل
افریقہ میں ایک غلام خاندان کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ اپنی بے پناہ خوبیوں کی بدولت ہندوہستان میں ایک ریاست کے سربراہ مملکت کا اعزاز پانے میں ایسے ہی کامیاب رہا،اس نے برصغیر کے ایک بڑے شاہی خاندان کے خواب خاک میں ملا دیئے تھے۔
(جاری ہے)
1548میں حبشہ خاندان میں جنم لینے والے اس بچے کا نام ”چاپو“ تھا جسکو والدین نے غربت کے ہاتھوں تنگ آکر فروخت کر دیا تھا، جب یہ ریڈسی پورٹ پر غلاموں کی قطار میں موجود تھا تو اسکے وہم وگمان میں بھی نہ ہوگا کہ اس کا یہ سفر اسکو بادشاہ بنانے کا ذریعہ بنے گا، نہ ہی اسکے والدین نے اسکو بیچتے وقت یہ سوچاہوگا، انھوں نے تو غنیمت جان کر اپنی غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسکو امیر زادوں کے ہاں فروخت کر کے دل کو یہ کہہ کر تسلی دے لی ہوگی اس بچے کے مقدر میں یہی لکھاتھا،اور اس دولت کو اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے زیر استعمال لائے ہوں گے، نجانے اس موقع پر انکے والدین کے کیا جذبات ہوں گے، بھائیوں اور بہنوں سے بچھڑنے کا دکھ تو اس وقت بچے کو بھی ضرور ہوا گا، ایساہونا فطری عمل تھا کیونکہ یہ بچہ کوئی شیر خوار بچہ نہ تھا جو احساسات اور جذبات سے نابلد ہوتا، یہ نو عمر لڑکا تھا،جس کے ہاتھ بندھے تھے جو مالک کی رضامندی سے حرکت کر سکتا تھا،اسکو بیچنے کے لئے بغداد لایا گیا،اسکے نین نقش تو حبشیوں جیسے تھے مگر اسکی ذہانت کوئی صاحب نظر ہی پرکھ سکتا تھا، اس کو ریڈ سی پورٹ سے بغداد بندرگاہ لایا گیا جہاں ایک معروف خریدار کے ہاں بیچ دیا تھا، اس خریدار نے باقی غلاموں سے صرف نظر کرتے ہوئے اس کے منہ بولے دام لگائے کیونکہ وہ اسکی خداد اد صلاحیتوں کو بھانپ گیا تھا،اسکے مالک نے اسکو بغداد میں تعلیم دلوائی، مذہب کا شعور دیا، بعد ازاں یہ اسلام کو قبول کر کے دائرہ اسلام میں داخل ہوا۔
1570 میں اسکو دکن جو اسوقت جنوبی انڈیا کہلاتا تھاوہاں لایا گیا، غلامی کی زنجیر اسکے پاؤں کی زینت بنی رہی،اور اسکے مالک نے اسکو ایک نئے خریدار کے ہاں فروخت کر دیا،خرید کنندہ خود بھی سابق غلام تھاوہ احمد نگر کی سلطنت میں وزارت اعلیٰ کے دفتر میں ناظم شاہی کے فرائض انجام دے رہا تھا،وہ ان سینکڑوں حبشیوں میں سے تھا جو سلطنت دکن کے ملازم تھے، انڈیا میں حبشیوں کو بھرتی کرنے کا سلسلہ16صدی تک جاری رہا،ریاست ان سے فوجی خدمات لیا کرتی تھی،اسکی وجہ یہ تھی یہ کہ یہ طبقہ طاقتور،وفادار اور جسمانی طور پر مضبوط خیال کیا جاتا تھا۔
یہ بحری سفر کے محافظ سمجھے جاتے تھے،اِنکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر ایک بھی حبشی بحری جہاز پر ہوتا تو قزاق اس پر حملہ آور نہ ہوتے تھے، یہ اس زمانے کی بات ہے جب ممالک کے مابین تجارت کا بڑاوسیلہ بحری جہاز ہی تھے، طویل قیام کے باوجود دکن کی ریاست نے انکو مستقل سٹیٹس نہ دیا۔
وہ معروف خریدار جس نے اس بچے کو خرید کیا تھا اسکا نام چنگیز خاں تھا،اسکی وفات بچے کی خریداری کے پانچ سال بعد ہوگئی،جس سے اسکو رہائی مل گئی لیکن اس نے اپنے والدین کے پاس وآپس جانے کے بجائے دکن کی قریبی ریاست باجہ پور میں قیام کیا اور 20سال تک وہاں فوجی خدمات انجام دیں،اسکی کاردگی اور وژن کو دیکھتے ہوئے اس کو چھوٹے گروپ کی قیادت سونپ دی،بہترین قیادت کے عوض اسکو ”ملک “ کا خطاب ملا،اس نے اس کو خیر آباد کہا اور 1959 میں دوبارہ احمد نگر آگیااور دوسرے حبشی لارڈز کے زیر سایہ کام کرنے لگا،یہ وہ دور تھا جب شہنشاہ اکبر دکن کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا،اس نے مذکورہ ریاست کی طرف پیش قدمی کی مگرناکام رہا،اس غلام بچے کو دنیا ملک امبر کے نام سے جانتی ہے، یہ بڑا جنگجو تھا اور اچھا منتظم بھی،احمد نگر سے مغلوں کو نکالنے کے بعداس نے نیا دارلخلافہ بنایا،سترھویں صدی میں یہ شہر مغلوں کے قبضہ میں تھا،اورنگ زیب نے اس پر قبضہ کیا اس لئے اس کا نام اورنگ آباد رکھا تھا۔
اس غلام بچے نے اپنے عہد حکومت میں بہت سی اصلاحات کیں تھیں، جن میں قابل ذکر لینڈ ریونیو ماڈل تھا، نیز شہر میں پانی کی قلت کا مسئلہ طویل مدت سے چل رہا تھا اس نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے صرف پندرہ ماہ میں پورے شہرمیں پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا۔
کہا جاتا ہے کہ ملک امبر دنیا کا پہلا حکمران تھاجس نے1612 میں جنگ میں راکٹ کو بطور ہتھیار استعمال کیا ،امکان ہے کہ ملک امبر کے اس تصور کے بعد ٹیپو سلطان نے جدید شکل دی،اس افریقی غلام بچے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بے مثال ملٹری اسٹریجسٹ تھا،اور باکمال آرکیٹیکٹ بھی تھا،اورنگ آباد میں اس نے عظیم الشان دروازے بنوائے،جس میں عمودی ستونوں کی تکنیک متعارف کروائی جو اس سے پہلے کہیں موجود نہ تھی،یہ بلا کا ذہین،کام کا دھنی تھا ان خوبیوں کی بدولت اس غلام نے جلد ہی سفارتی،عدالتی،عسکری اور سیاسی امور میں مہارت حاصل کر لی تھی۔
حبشہ، بغداد، یمن اور پھر ہند کی سرزمیں پر دوسروں کے ہاتھوں فروخت ہوتا ہوا یہ غلام بیس سال تک نظام شاہی سلطنت سے وابستہ رہا۔
جو نوجوانان اٹھتے بیٹھتے یہ کہتے رہتے ہیں کہ کاش ایسا نہ ہوتا۔ہمارے ورثاء نے بھاری بھر اثاثے چھوڑے ہوتے،ہمارے
والدین پڑھے لکھے ہوتے تو ہم بھی آج بڑے عہدے پر فائز ہوتے،غربت
ہمارے پاؤں کی زنجیر نہ بنتی تو ہم بھی ترقی کے سفر پر رواں دواں ہوتے۔سنگین حالات کے ہاتھوں مجبور نوجوان نشہ کی دلدل میں اتر جاتے ہیں، بعض خود کشی ہی میں نجات سمجھتے ہیں۔اس غلام مگر حکمران کی کہانی ان مایوس نوجوانان کے لئے مشعل راہ ہے
اس کالے حبشی نے غلامی سے حکمرانی تک کا سفر جس آن اور شان سے کیا ہے،دنیا اس کے کارناموں پر معترف ہی نہیں حیران بھی ہے،1626میں دُنیا سے رخصت ہونے والا یہ حبشی ملک امبر خلد آباد میں آسودہ خاک ہے، غلام ہونے کے باوجود اس نے حالات سے سمجھوتہ کرکے اِسی میں سے اپنی ترقی کا راستہ نکالا اور کاش ایسا نہ ہوتا !اس فرسودہ نظریہ کو اپنی دانائی، حکمت، بہادری اور صلاحیتوں سے شکست دے کر اس مرحوم نے یہ پیغام دیا کہ خوشی بختی کے دروازے کھولنے سے کھلتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد محمود فیصل کے کالمز
-
بدنما داغ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
داستان عزم
منگل 15 فروری 2022
-
پتھر کا دل
منگل 8 فروری 2022
-
آزمودہ اور ناکام نظام
پیر 31 جنوری 2022
-
برف کی قبریں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
ملازمین کی مالی مراعات
پیر 10 جنوری 2022
-
مفاداتی جمہوریت
پیر 3 جنوری 2022
-
سعودی حکام کی روشن خیالی
ہفتہ 25 دسمبر 2021
خالد محمود فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.