گڈُے

اتوار 29 دسمبر 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

نسل نو جس نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عہد میں آنکھ کھولی،گلوبل ویلیج میں قدم رکھا، بدلتی دنیا کو آنکھوں سے دیکھا، ایک کھیل سے لے کرالیکٹرانکس گیم تک سب ٹیب کی صورت میں انکی دسترس میں ہے، ا س کی مصروفیات ماضی سے یکسر مختلف ہیں۔ اس کی دنیا سوشل میڈیا سے شروع ہو کر ٹک ٹاک پے ختم ہو جاتی ہے، اسے کیا معلوم کہ پہلے دور میں بچوں کی مصروفیات کس نوعیت کی تھیں، ان کے کھلونے کون سے تھے یہ کون کون سے کھیل کھیلا کرتی تھیں، سادگی کے اس زمانے میں” گڈی اور گڈے“ کا کھیل بچوں میں خاصا مقبول ہوتا تھا، ان کی باہم شادیاں ہوا کرتی تھیں ،بچے خود ہی رشتے طے کرتے تھے، آپ ہی ان کے کھانے اور بارات کا اہتمام کرتے ، اگر کوئی بچی کسی سے روٹھ جاتی تو پہلی دھمکی یہی لگاتی کہ وہ اپنے گڈے کی بارات پے اسے ساتھ نہیں لے جائے گی، گڈی اورگڈے عمومی طور پے گھر میں کپڑوں اور اون سے بنائے جاتے تھے، مائیں اپنی بچیوں کے لیے بناتی یا خود لڑکیاں بھی بنانا سیکھ جاتیں، بارات کے لیے البتہ کراکری مٹی کے برتنوں پے مشتمل بازار سے خرید کی جاتی، باراتیوں کو کھانا پیش کرنا ،چائے بنانا،انکو نہلانا، سُلانا ،سر پے کنگھی کر نا ، سُر مہ لگانا، ضرورت حاجت کے لیے انکو علامتی طور لے جانا، پانی پلانا، گڑیا کو لباس پہنانا اور ان کے کپڑے کی سلائی کرنا انکو سنبھال کر رکھنا اس کے لیے بکس بنوانا ،دلچسپ امر یہ ہے کہ گڈی کا دوپٹہ اس کے لباس کا لازمی حصہ سمجھا جاتا اور اس کے سر پے ہمیشہ دیا جاتا تھا، بچیاں اور بچے گرمی میں ہوا دینے کے لئے ہاتھ والا پنکھا جھلاتے، کبھی کبھار انکی باہم لڑائی بھی کرواتے، سارا دن وہ انکی خدمت میں مصروف رہتیں تھیں، جب انکا دل چاہتا وہ انکو لٹا دیتیں، کبھی بٹھا دیتیں اور جب دل چاہا انکو چلا لیتی، بظاہر ان کا حلیہ تو لڑکی اور لڑکے کی طرح ہی ہوا کرتا تھا،تاہم یہ ان کے رحم وکرم پے ہوتے تھے ، رات کو وہ ان کو اپنے پاس سلاتی تھیں جس پہر میں بھی آنکھ کھلتی ان کی نظر ان پے پڑھتی وہ انکا رخ بدل کر پھر سو جاتیں ، جب کوئی بڑا ان کا حال ا حوال پوچھتا تو بچے گڈی اور گڈے کا ہاتھ پکڑ کر انکو سلام کرنے کو کہتیں،عمومی طور پر بڑے انکو ہدایات دیتے رہتے کہ انھیں دھوپ میں لیٹا دیں ،سائے میں لے جائیں، بعض بچیاں اپنے گڈے اور گڈیوں کا باہم تبادلہ بھی کرتی تھیں، دن بھر وہ انکی دیکھ بھال میں مصروف رہتیں، اس عمل سے وہ گھر گرہستی بھی سیکھ جاتیں تھیں، بچوں کی سرگرمیوں سے ہی اس طرح آشنا ہو جاتیں، خود کلامی ہی سے ان سے بات چیت کرتے کرتے گفتگو کے آداب بھی سمجھ لیتیں، بہت سی بچیاں ان سے بڑی جذباتی وابستگی پیدا کر لیتی اور شادی کے بعد انکو بھی اپنے ساتھ لے جاتیں، اس جذبہ کو بعض شعراء کرام نے شادی کے نغموں میں بھی سمودیا ہے ۔

(جاری ہے)


آج کے زمانے کی بچیوں کے لیے یہ تصور بھی محال ہے کیونکہ انکی اس سر گرمی کی کوئی وڈیوز بھی فی الوقت میسر نہیں ہے ،عین ممکن ہے وہ انھیں گنوار ہی قرار دے دیں کہ کیسی سادہ تھیں اس دور کی بچیاں جو ان بتوں سے باتیں کرتیں تھیں ، لیکن اس وقت اس سے بہتر کوئی سرگرمی تھی ہی نہی، اس عہد کے بچے اس کھیل کو غنیمت خیال کرتے تھے۔ لیکن ان میں سے کوئی گڑیا ملکہ یا رانی نہیں ہوتی تھی نہ کوئی بادشاہ یا شہزادہ ہوتا انکا گیٹ اپ کرنا، لباس بناناخاصا محال تھا، جس طرح آج سیاسی شخصیات پے مشتمل کوئی بھی کھیل یا گیم بنائی جا سکتی ہے، اس زمانے میں تو یہ خیال بھی ناممکن تھا، تاہم گوشت پوست کے حکمران ہمیں ”گڈا“ نما ضرور دکھائی دیتے ہیں جو اختیار سے عاری ہیں، اگر بغور ان کا مشاہدہ کیا جائے تو گردونواح میں انکی غالب تعداد میسرآ سکتی ہے، اگر انکی حرکات و سکنات کو دیکھا جائے تو گستاخانہ نگاہ مقتدر طبقہ کی جانب بے ساختہ اٹھ جاتی ہے،قومی دائرہ سے نکل کر عالمی سطح پے اس نظریہ کو وسعت دی جائے تو بہت سے سربراہ مملکت بے اختیار مانے جاتے ہیں جو ان”گڈوں“ کی مانند دکھائی دیتے ہیں ،محسوس ہوتا ہے یہ ”آپریٹ“ ہو رہے ہوتے ہیں، ان کے ”بچے“ انکی انگلی پکڑ کر چلاتے ، انکو رکنے کا اشارہ کرتے ،انکو بیٹھ جانے کا حکم دیتے اور کھڑے ہونے کو کہتے ہیں۔

کب،کہاں، کیسے اور کیوں بولنا ہے،یہ سب ان کو بتانا پڑتا ہے، کس تقریب میں شریک ہونا ہے کن سے معذرت کرنی ہے، ہدایات کہاں سے لینی ہیں،کس پے عمل کرنا اور کس کو پالیسی کا نام دے کر ٹالنا ہے، کب تالی بجانی اور کس وقت قہقہ لگانا ہے،یہ اشاروں، کناؤں ہی سے سمجھ جاتے ہیں، اس قسم کے یہ” گڈے “ہماری سیاسی اور غیر سیاسی زندگی میں بکثرت پائے جاتے ہیں، کون سی اور کتنی زمین پے قبضہ کرنا ہے،کب کسی کی پگڑی اچھالنی ہے،کس کی مشروط حمایت کرنی ہے،کن کن سے سیاسی انتقام لینا ہے،بھتہ کہاں سے اکھٹاہ کرنا ہے اور کن میں اسکو تقسیم ہونا ہے،سیاسی سودی بازی کے لئے کون سی پارٹی موزوں ہے،کس کا گراف گرانا اور کسے شہرت دلوانی ہے،کس فروعی گروہ سے کیاخدمات لینی ہے اور کس وقت اسکو اچھوت بنانا لازم ہے کب مذہب بیزار رویہ اختیار کر کے میرا جسم، میری مرضی کا نعرہ بلند کر کے سماج میں ارتعاش پیدا کرنا ہے، لال لال کا نعرہ کب لگانا ہے، عالمی مالیاتی اداروں کی کون کون سی شرائط ماننی ہیں ، اس نوع کے” کارخیر“ کے لئے کون کون سے” گڈے“ درست خیال کئے جاسکتے ہیں اس کا فیصلہ ہی وہ طاقتور افراد ، این ، جی اوز، صاحب اقتدار کرتے ہیں جو بچوں کی طرح ان زندہ انسانوں کی نقل وحمل کو کنٹرول کرتے ہیں۔

، انسانی حقوق کی حمایت،مذہبی اور سیاسی آزادی جیسی دانشمندانہ انکی گفتگو سن کر کب تصور کیا جا تا ہے کہ سب کٹھ پتلی ہیں،بڑے اذہان رکھنے والے اگر انپی زبان بھی رکھتے تو کیا آج امت مسلمہ اس حال کو پہنچتی، اہل کشمیر اور فلسطین بے بسی کی تصویر دکھائی دیتے؟ انھیں اگر طاقت میسر ہوتی امت کے وسائل انکی دسترس میں ہوتے، بھلا ان پے شب خون مارنے کی بڑی طاقتوں کو جرات ہوتی،انتخابی نظام کنٹرول کرنا محال ہوتا،داخلی اور خارجی پالیسیوں میں ہم آزاد ہوتے،آج کی اصطلاح میں یہ ”پپٹ“ کہلاتے ہیں، اس لیے نہ توعوام میں مقبول ہوتے ہیں نہ ہی ان سے وہ محبت کرتی ہے، آج کی زبان میں انھیں مینڈیٹ بھی حاصل نہی ہوتا ہے، یہ دوسروں کے اشاروں پے اپنی گوورننس کی بنیاد رکھتے ہیں، اطاعت میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ اقتدار کے لیے اپنی تہذیب اور کلچر تک بدل ڈالتے ہیں ۔


دیناپے حکم چلانے والے نجانے کیوں اپنے فرمابرداروں کو ”گڈے“ سمجھ لیتی ہے اور یہ بھول جاتی ہے کہ اس انسان کے جسم سے جب روح نکل جاتی ہے تو یہ ”مٹی کا باوا“ خود بھی گڈا ہی بن جاتا ہے اور اتنا ہی بے اختیار ہو جاتا ہے جتنے بچوں کے گڈے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :