
گڈُے
اتوار 29 دسمبر 2019

خالد محمود فیصل
(جاری ہے)
آج کے زمانے کی بچیوں کے لیے یہ تصور بھی محال ہے کیونکہ انکی اس سر گرمی کی کوئی وڈیوز بھی فی الوقت میسر نہیں ہے ،عین ممکن ہے وہ انھیں گنوار ہی قرار دے دیں کہ کیسی سادہ تھیں اس دور کی بچیاں جو ان بتوں سے باتیں کرتیں تھیں ، لیکن اس وقت اس سے بہتر کوئی سرگرمی تھی ہی نہی، اس عہد کے بچے اس کھیل کو غنیمت خیال کرتے تھے۔ لیکن ان میں سے کوئی گڑیا ملکہ یا رانی نہیں ہوتی تھی نہ کوئی بادشاہ یا شہزادہ ہوتا انکا گیٹ اپ کرنا، لباس بناناخاصا محال تھا، جس طرح آج سیاسی شخصیات پے مشتمل کوئی بھی کھیل یا گیم بنائی جا سکتی ہے، اس زمانے میں تو یہ خیال بھی ناممکن تھا، تاہم گوشت پوست کے حکمران ہمیں ”گڈا“ نما ضرور دکھائی دیتے ہیں جو اختیار سے عاری ہیں، اگر بغور ان کا مشاہدہ کیا جائے تو گردونواح میں انکی غالب تعداد میسرآ سکتی ہے، اگر انکی حرکات و سکنات کو دیکھا جائے تو گستاخانہ نگاہ مقتدر طبقہ کی جانب بے ساختہ اٹھ جاتی ہے،قومی دائرہ سے نکل کر عالمی سطح پے اس نظریہ کو وسعت دی جائے تو بہت سے سربراہ مملکت بے اختیار مانے جاتے ہیں جو ان”گڈوں“ کی مانند دکھائی دیتے ہیں ،محسوس ہوتا ہے یہ ”آپریٹ“ ہو رہے ہوتے ہیں، ان کے ”بچے“ انکی انگلی پکڑ کر چلاتے ، انکو رکنے کا اشارہ کرتے ،انکو بیٹھ جانے کا حکم دیتے اور کھڑے ہونے کو کہتے ہیں۔ کب،کہاں، کیسے اور کیوں بولنا ہے،یہ سب ان کو بتانا پڑتا ہے، کس تقریب میں شریک ہونا ہے کن سے معذرت کرنی ہے، ہدایات کہاں سے لینی ہیں،کس پے عمل کرنا اور کس کو پالیسی کا نام دے کر ٹالنا ہے، کب تالی بجانی اور کس وقت قہقہ لگانا ہے،یہ اشاروں، کناؤں ہی سے سمجھ جاتے ہیں، اس قسم کے یہ” گڈے “ہماری سیاسی اور غیر سیاسی زندگی میں بکثرت پائے جاتے ہیں، کون سی اور کتنی زمین پے قبضہ کرنا ہے،کب کسی کی پگڑی اچھالنی ہے،کس کی مشروط حمایت کرنی ہے،کن کن سے سیاسی انتقام لینا ہے،بھتہ کہاں سے اکھٹاہ کرنا ہے اور کن میں اسکو تقسیم ہونا ہے،سیاسی سودی بازی کے لئے کون سی پارٹی موزوں ہے،کس کا گراف گرانا اور کسے شہرت دلوانی ہے،کس فروعی گروہ سے کیاخدمات لینی ہے اور کس وقت اسکو اچھوت بنانا لازم ہے کب مذہب بیزار رویہ اختیار کر کے میرا جسم، میری مرضی کا نعرہ بلند کر کے سماج میں ارتعاش پیدا کرنا ہے، لال لال کا نعرہ کب لگانا ہے، عالمی مالیاتی اداروں کی کون کون سی شرائط ماننی ہیں ، اس نوع کے” کارخیر“ کے لئے کون کون سے” گڈے“ درست خیال کئے جاسکتے ہیں اس کا فیصلہ ہی وہ طاقتور افراد ، این ، جی اوز، صاحب اقتدار کرتے ہیں جو بچوں کی طرح ان زندہ انسانوں کی نقل وحمل کو کنٹرول کرتے ہیں۔، انسانی حقوق کی حمایت،مذہبی اور سیاسی آزادی جیسی دانشمندانہ انکی گفتگو سن کر کب تصور کیا جا تا ہے کہ سب کٹھ پتلی ہیں،بڑے اذہان رکھنے والے اگر انپی زبان بھی رکھتے تو کیا آج امت مسلمہ اس حال کو پہنچتی، اہل کشمیر اور فلسطین بے بسی کی تصویر دکھائی دیتے؟ انھیں اگر طاقت میسر ہوتی امت کے وسائل انکی دسترس میں ہوتے، بھلا ان پے شب خون مارنے کی بڑی طاقتوں کو جرات ہوتی،انتخابی نظام کنٹرول کرنا محال ہوتا،داخلی اور خارجی پالیسیوں میں ہم آزاد ہوتے،آج کی اصطلاح میں یہ ”پپٹ“ کہلاتے ہیں، اس لیے نہ توعوام میں مقبول ہوتے ہیں نہ ہی ان سے وہ محبت کرتی ہے، آج کی زبان میں انھیں مینڈیٹ بھی حاصل نہی ہوتا ہے، یہ دوسروں کے اشاروں پے اپنی گوورننس کی بنیاد رکھتے ہیں، اطاعت میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ اقتدار کے لیے اپنی تہذیب اور کلچر تک بدل ڈالتے ہیں ۔
دیناپے حکم چلانے والے نجانے کیوں اپنے فرمابرداروں کو ”گڈے“ سمجھ لیتی ہے اور یہ بھول جاتی ہے کہ اس انسان کے جسم سے جب روح نکل جاتی ہے تو یہ ”مٹی کا باوا“ خود بھی گڈا ہی بن جاتا ہے اور اتنا ہی بے اختیار ہو جاتا ہے جتنے بچوں کے گڈے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد محمود فیصل کے کالمز
-
بدنما داغ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
داستان عزم
منگل 15 فروری 2022
-
پتھر کا دل
منگل 8 فروری 2022
-
آزمودہ اور ناکام نظام
پیر 31 جنوری 2022
-
برف کی قبریں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
ملازمین کی مالی مراعات
پیر 10 جنوری 2022
-
مفاداتی جمہوریت
پیر 3 جنوری 2022
-
سعودی حکام کی روشن خیالی
ہفتہ 25 دسمبر 2021
خالد محمود فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.