سماجی بگاڑ

جمعرات 6 اگست 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ارباب اختیار سے لے کر عام شہری تک اس بات پر نازاں ہے کہ مملکت خدادا مذہب کے نام پر حاصل کی گئی ہے،ریاست کا سرکاری مذہب بھی اسلام ہی قرار پایا ہے،اس کے سربراہ مملکت اورحکومت کا مسلم ہونا بھی لازم ہے،اس کا دستور بھی اسلامی ہے، محتاط اندازے کے مطابق 99% شہری مسلم جبکہ غیر مسلم کی بہت ہی قلیل تعداد اس ملک کی باسی ہے،اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ حج وعمرہ کی سعادت حاصل کرنے والوں کی کثیر تعداد کا تعلق بھی وطن عزیز سے ہی رہاہے۔

اپنے دین سے لگاؤ دیوانگی کی حد تک ہے،عشق رسول ہم میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔اس اعتبار سے کوئی بھی واقعہ دنیا میں کہیں بھی روا ہو جائے تو ہمارے کان کھڑے ہوجاتے ہیں،ہم جذبات کی اس کیفیت سے دوچار ہو جاتے ہیں اسے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا دیتے ہیں، باوجود اس کے بہت سے واقعات کی حقیقت ہی سے ہم ناآشناء ہوتے ہیں مگر اسی کوہی کو بنیادبنا کر آپے سے باہر ہو جانا ہماری روایت ہے، گھیراؤ، جلاؤ کرنے اور قومی املاک کو نقصان پہنچانے کو عین ” شریعت “خیال کرتے ہیں،ہماری اس بشری کمزوری کو کئی ایک بار ہدف بنا کر مفادات پرست عناصر نے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے،یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

(جاری ہے)


 سماجی ماہرین کا موقف ہے جس قوم کی غالب آبادی ناخواندہ ہو،اور اس کے نزدیک مذہب محض عبادات، پوجا پاٹ تک ہی محدود ہو اسکی جذباتی وابستگی کو کیش کروانا دائیں ہاتھ کا کھیل ہے،تاریخ گواہ ہے مقتدر طبقات سے لے کر مذہبی راہنماؤں ،اور نیم ملاُں نے اپنی سیاسی دوکان داری کے لئے جذباتی افراد ہی کو اپنی خواہش کا ایندھن بنایا ہے۔ اس کے منفی اثرات ہی ہمارے سماج پر مرتب ہوئے ہیں،جس سے کسی کو بھی مفر نہیں اسی کی کوکھ سے فرقہ پرستی نے جنم لیا ہے،نام نہاد پیر پرستی نے فروغ حاصل کیا ہے اور ”عامل بابے“ کا کلچر پروان چڑھا ہے،فی زمانہ اسکو بھی مافیاز کی صف میں شامل سمجھا جاتا ہے،مذہب کے نام پر جب لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہو تو پھر مجرمانہ مزاج کا ہر فرد پر پرزے نکال لیتا ہے،اس کا فوری رد عمل اخلاقی اقدار کی گراوٹ کی صورت میں برآمد ہوتا ہے،جس کو عرف عام میں زوال پذیر سماج کہا جاتا ہے۔


اس کے برعکس اگر مذہب کو بطور نظام لیا جاتا ہر قدم قدم پر جواب دہی کا احساس دامن گیر ہوتا تو ہمارا سماج ایک مثالی معاشرہ کہلاتا،ہمیں کسی منظم تبلیغ کی بھی ضرورت پیش نہ آتی بلکہ ہمارا عمل ہی ہماری دعوت عام ہوتا،یہ تب ہی ممکن تھا جب یہاں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہوتی، ملاوٹ، جھوٹ، دھوکہ دہی اور دیگر اخلاقی بیماروں کا وجود تک نہ ہوتا، کسی نے کیا خوب کہا کہ مغرب معاشرہ میں مسلمان تو نہیں مگر وہاں اسلام ہے،پاکستانی معاشرہ مسلم سماج ہے مگر یہاں اسلام نہیں،کس قدر قابل توجہ ہے کہ وہ تمام اخلاقی برائیاں جن کا مغرب میں سرے سے وجود ہی نہیں وہ ہماری پہچان بن چکی ہیں ہمارے مذہبی تہوار بھی روائتی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں جیسے غیر مسلم ،مندر یا کلیسہ جا کر پوجا پاٹ کرتے ہیں یا سروس انجام دیتے ہیں،اور پھر روز مرہ کے معمولات انجام دیتے ہیں۔

ہم نجانے کیوں فراموش کر بیٹھے ہیں کہ اسلام ضابطہ حیات ہے جس کی تعلیمات کا اطلاق محض عبادت گاہ تک نہیں ہے بلکہ بازار، منڈی، درس گاہ عدالت اور حکومتی ایوان تک اس کا
دائرہ کار ہے، اور اپنی اپنی بساط کے مطابق ہر فرد کو بلا امتیاز رنگ، نسل، صنف بہرحا ل جواب دہ بھی ہونا ہے۔
 ہماری سماجی اخلاقی گراوٹ کو معروف مذہبی سکالرنے جب میڈیا پر بیان کیا تو ساری قوم ہی اپنی پارسائی کا دم بھرنے لگی مانا کہ مقام اور محل ایوان اقتدار تھامگر آئینہ تو جھوٹا نہ تھا، اس معزز شخصیت کی خلاصی معافی مانگنے سے ہوئی۔


کرونا کی وبائی مرض کے دوران بے بس افراد کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا،ادویات کو بلیک کرنا یہ تو کل ہی کی بات ہے،قربانی کے جانور کے دانت توڑ کر دھوکہ دہی سے فروخت کرنا،زیادہ وزن دکھانے کے لئے منڈی میں اسے شربت، آٹا ملا پانی پلا کر فرباء کرنا، یہ” کار خیر“ بھی اس مسلمان کے ہاتھوں انجام پارہا ہے، جس کے داعی نے دعویٰ کیا ہے، کہ مومن سب کچھ ہو سکتا ہے مگردھوکے باز،جھوٹا نہیں ہو سکتا ، جس کو اخلاق کا مجسمہ کہا اور جنت کی بشارت دی،آج کا مومن دودھ میں کیمیکل شامل کر کے،تربوز کو ٹیکے لگا کر،مرچوں میں برادہ ڈال کر وہ تمام حدیں پار کرچکا ہے،جن ہاتھوں سے صدائے تکبیر بلند کرتا ، اس سے ہی جعلی کرنسی کا کاروبار کرتا ہے،جس زبان سے حمد اور نعت کہتا ہے،اسی سے جھوٹ بولتا اور دھوکہ دیتا ہے۔


بات اس سے بھی آگے نکل چکی ہے،رشتوں کے تقدس کی پامالی سر بازار ہو رہی ہے، طلباء کا اپنے استاد کی پٹائی کرکے وڈیو کو وائرل کرنا،معماران قوم کا اپنی ہی طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنا،بیٹے کے ہاتھوں ماں پر تشدد ہونا، معمولی رقم کے تنازعہ پر بیٹوں کے ہاتھوں باپ کا قتل اس نام نہاد روشن خیال عہد کی بدنماء نشانیاں ہیں۔
 ہزاروں کی تعدا د میں موجود مساجد، بھاری بھر مذہبی اجتماعات ،ہر روز تبلیغ کرتی جماعتیں بھی اگر سماجی روش کو بدلنے میں ناکام ہیں،تو پالیسی سازوں کا اطمینان کیسا جو اسلامیات کا مضمون پڑھا نے کو ہی کافی سمجھتے ہیں۔

تعلیمی نصاب میں اس کی پیوند کاری کیا نتائج لا سکتی ہے؟ قومی سطح پر زیر بحث مالیاتی سکینڈل ہر مافیاز کی آبیاری کے لئے کافی ہیں، عدم سزا کا تصور انکو مزیدبہادر بنا دیتا ہے،عزت اور توقیر کے بدلتے پیمانوں نے معاشرہ سے اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے،ایک زمانہ تھا جب خال خال لوگ دھوکہ دہی، ملاوٹ ،فریب، ذخیرہ اندوزی،بدعنوانی میں شریک تھے وہ بھی سماج سے اتنے خوف زدہ ہوتے کہ سورج طلوع ہونے سے قبل گھر سے کوچ کر جاتے اور رات کی تاریکی میں پلٹتے تھے،اب یہ عالم ہے ،کہ ہر شریف النفس اس نوع کے جرائم پیشہ افراد ہی سے ڈرتا ہے ،دولت کے بل بوتے پر اس قماش کے لوگوں نے اعلیٰ روایات کو اپنے پاؤں تلے روندھ دیا ہے،لاقانونیت کی ایسی فضا قائم کردی ہے، کہ وطن کا خوبصورت چہرہ اس میں گم ہو کر رہ گیا ہے۔


معروف روایت ہے دوسرے خلیفہ نے دودھ میں پانی ملانے کی بحث جس ماں بیٹی کی سنی تھی حالانکہ ماں بیٹی کا امتحان لے رہی تھی ،اُسی بیٹی کو بہو بنانے کا قصد کر لیا، ا یک طرف آپ  نے عام گھرانے کی بیٹی کا رشتہ بطور حاکم وقت بیٹے کے لئے مانگا تا کہ آئندہ نسل بھی اعلی کردار کی حامل ہو، تو دوسری طرف لاپرواہی پر امیر المومنین نے جرم کی پاداش میں اپنے گورنرز کے اقرباء کو اپنی نگرانی میں کوڑے لگوائے، جرم سے کبھی بھی صرف نظر نہیں کیا جس سے بڑی سلطنت پر عدل وانصاف کا بول بالا ممکن ہوا،ہمارے سماج میں بگاڑ اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے، نت نئے قوانین بھی غیر موثر دکھائی دے رہے ہیں، اخلاقی اقدار کی پامالی، لاقانونیت،دھوکہ دہی ہر سو جاری ہے۔

مافیاز کو انصاف کے
کٹہرے میں لاناصرف اسلامی سزاؤں کے نفاذ ہی سے ممکن ہے کیونکہ بدیشی قانون میں موجود سقم مجرم ہی کو تحفظ فراہم کرتاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :