پارہ چنار کے شہد ااور جل کر مرنے والوں کا نوحہ
جمعرات 29 جون 2017
(جاری ہے)
دوسروں کی طرح ایک خاکی کی حیثیت سے احمد پور شرقیہ میں ہونے والے سانحے پر مجھے بھی حد درجہ افسوس ہے لیکن پاراچنار کے شہدا کا کوئی تقابل احمد پور شرقیہ کے مرحومین کے ساتھ پرلے درجے کی حماقت ہے ۔ ایک قوم کی حیثیت سے اس سے بڑا سانحہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک سو ساٹھ کے قریب افراد زندہ جل مرے اور سو کے قریب زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں لیکن احمد پور شرقیہ میں ہونے والا یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے ۔نہ پہلے واقعے سے ہم نے کوئی سبق سیکھااور نہ اب کوئی ایسا ارادہ ہے ۔ ہاں حکومت کی لفظی چھترول کرنے میں جتنے شیر ہم ہیں اتنی شائد ہی دنیا کی کوئی قوم اور ہو لیکن عمل سے تہی دست۔اعتراض یہ ہے کہ بڑی تعداد میں برن یونٹس ملک کے کونے کونے میں کیوں موجود نہیں ہیں ؟ دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں ہوتے ہاں لیکن ہمارے ہاں بہت ہی کم ہیں ، نہ ہونے کے برابر۔چھ کروڑ سے پچاس لاکھ کے لگ بھگ آبادی والے برطانیہ میں سینتیس ، بتیس کروڑ سے زائد کی آبادی والے دنیا کے بادشاہ امریکہ میں صرف ایک سو تیئس ، آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ ملک میں صرف تیرہ اور کینیڈا میں پچیس برن یونٹ ہیں ۔ ہمارا ان ملکوں کے ساتھ کوئی موازنہ بنتا نہیں لیکن بہرحال کسی بھی ناگہانی صورت حال سے نمٹنے کے لئے ملک بھر میں برن یونٹس قائم کرنے سمیت صحت کی بہترین سہولیات کو عام کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ بعض ” دانش وڑ “ قسم کے لوگوں کو اعتراض یہ ہے کہ احمد پور شرقیہ میں جل مرنے والوں کے لواحقین کو بیس لاکھ روپے دئیے جارہے ہیں جبکہ پاراچنار کے شہدا کی جانوں کی قیمت کم لگائی جارہی ہے ۔
عقل کے اندھو!دونوں واقعات اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل الگ ہیں اور ان کا موازنہ کوئی احمق ہی کر سکتا ہے ۔احمد پور شرقیہ کے متاثرہ خاندان قانونی طور پر کسی بھی مالی امداد کا حق نہیں جتا سکتے لیکن ریاست کی اخلاقی ذمہ داری ضرور ہے کہ وہ متاثرہ خاندانوں کی آئندہ زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے ۔ پنجاب حکومت کا قابل تعریف عمل یہ ہے کہ وہ جاں بحق ہونے والوں کے ورثا کی مدد اور زخمیوں کو علاج کے لئے بھاری رقم فراہم کررہی ہے ۔
پارہ چنار میں شہید ہونے والوں کا دکھ اس سے کہیں زیادہ ہے افغان سرحد کے قریب کرم ایجنسی کا صدر مقام ہونے کے ناطے یہ براہ راست وفاقی حکومت کے دائرہ کار میں آتا ہے ۔یہ اعتراض کہ پارہ چنار میں دہشتگردی کے زخمیوں کو کسی نے نہیں پوچھا حقیقت کے برعکس اور انتہائی لغو ہے ۔ایجنسی انتظامیہ اور فوج نے زخمیوں کو فوری طور پر مقامی ہسپتال میں منتقل کیا اور پھر شدید زخمیوں کو آرمی کے ہیلی کاپٹر ز کے ذریعے ہی پشاور کے سی ایم ایچ میں منتقل کیا گیاجہاں گورنر کے پی کے اقبال ظفر جھگڑا نے ان کی عیادت بھی کی ۔ مشکل مگر یہ ہے کہ دہشتگردی میں شہید ہونے والوں کے ورثا کے لئے تین لاکھ روپے کی امدادی رقم پہلے سے طے شدہ ہے ، اب ظاہر ہے انسانی جان کی قیمت تو لگائی نہیں جا سکتی لیکن بہر حال اصل بات دہشتگردی کے عفریت سے مکمل طور پر چھٹکارہ پانا ہے نہ کہ ایسے واقعات میں شہید ہونے والوں کے لئے امدادی رقم پر بحث کرنا ۔ ریاست کے زیر قیادت فوج دہشتگردی کے مکمل خاتمے کے لئے پرعزم ہے اور سب کونظر آرہا ہے کہ گزشتہ تین چار برس میں ہمیں اس حوالے سے موٴثر اور نتیجہ خیز کامیابیاں بھی ملی ہیں لیکن بہرحال دہشتگردی کے مکمل خاتمے کے لئے ایک طویل جنگ کی ضرورت ہے اس وقت تک کہ ہم اس کی جڑوں کو ہی نہیں بلکہ بیج کو بھی جلا کر راکھ کردیں کہ آئندہ کوئی ہمارے ملک میں یہ بیج دوبارہ نہ بو سکے ۔ دہشتگردی اس ملک کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ بن چکا ہے لیکن ہمیں سب سے پہلے اپنے گھر کی خبر لینی ہے ۔سری لنکا نے پاک فوج کے تعاون سے تقریباََ تیس برس تک اس لعنت کے خلاف جنگ لڑی بھارت جس کا سپانسر تھا تب جاکے وہ اپنے ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ کر سکے لیکن خاکسار کی رائے یہ ہے کہ پوری طاقت اور سنجیدگی کے ساتھ پاکستان صرف تین برس پہلے دہشتگردوں کے خلا ف صف آرا ء ہوااور نتائج اس کے بہت حوصلہ افزا ء ہیں لیکن مکمل امن اور ملک کے ہر کونے میں معمول کی زندگی بحال کرنے میں ہمیں ابھی وقت لگے گا ۔ شرط یہ ہے کہ جب تک ہم مکمل امن کی منزل کو پانہیں لیتے تب تک ہمیں نہایت چوکنا رہنا ہوگا اور اپنی صفوں میں اتحاد کو بھی برقرار رکھنا ہوگا۔ قوموں کی زندگی میں دو تین دہائیاں کوئی زیادہ وقت نہیں ہوتا لیکن اگر درست سمت میں مثبت اور تعمیر ی کاموں میں یہ وقت گزرے تو ایک ایسی بنیاد ضرور بن جاتی ہے جس پر شاندار عمارت کی تعمیر تیزی کے ساتھ مکمل کی جاسکے ۔
تربیت اور کردار سازی پر مرکوز کی جانے والی تعلیم !تعلیم ، تعلیم اور بس تعلیم ہی اس لعنت سے چھٹکارہ پانے کی پہلی سیڑھی ہے ایک مسلمان ہونے کے ناطے اور جدید دنیا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کے لئے جس کا ہمیں ادراک ہونا چاہیے ۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تھا افلاس انسان کو کفر کی طرف لے جاتا ہے ۔ صرف تعلیم سے قوم کی تعمیر کی بنیاد تو رکھی جاسکتی ہے لیکن شاندار ،خوشحال اور پرامن مستقبل کے لئے ہمیں اپنے نوجوانوں کوصرف سرکاری نوکری کے حصول کی سوچ سے باہر نکل کر روزگار کے مواقع بھی فراہم کرنا ہوں گے ۔ صرف یہی ایک راستہ ہے جس پر چل کر ہم دہشتگردی کو مکمل شکست دیتے ہوئے ایک پرامن اور خوشحال پاکستان کی تعمیر کر سکتے ہیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خواجہ محمد کلیم کے کالمز
-
صحت کے دشمن تعلیمی ادارے
جمعرات 10 جنوری 2019
-
سو دن، کرتار پورہ اور سشمادیدی کا ندیدہ پن
منگل 4 دسمبر 2018
-
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ دو دن
منگل 20 نومبر 2018
-
بابائے قوم محمد علی جناح کے نام ایک مکتوب
جمعرات 16 اگست 2018
-
لبیک ، لبیک ، لبیک یار سول اللہ ﷺ
پیر 30 جولائی 2018
-
دہشتگردی، سیاست اور قوم کا مستقبل
پیر 16 جولائی 2018
-
سیاسی کارکنوں کا احتجاج،اِشاریہ مثبت یا منفی ؟
ہفتہ 16 جون 2018
-
ماں جائی
بدھ 6 جون 2018
خواجہ محمد کلیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.