انگلینڈ متنوع ٹیم کی فتح میں ملکی ترقی کا مضمر سبق

جمعرات 18 جولائی 2019

Luqman Anjum

لقمان انجم

اس دفعہ کرکٹ ورلڈ کپ میں انگلیڈ ٹیم کی ایک خاص بات تو یہ تھی کہ  یہ ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم قرار پائی دوسری اس کی خاص بات یہ تھی کہ کھلاڑیوں کی قومیتوں کے حوالہ سے  جتنا تنوع انگلش ٹیم کا تھا اتنا تنوع کسی دوسری ٹیم میں نہیں تھا چنانچہ اس بار انگلینڈ ٹیم کے  سات کھلاڑی  بشمول کپتان کے ایسےتھے جن کی جڑیں انگلینڈ میں نہیں ۔

یہ کھلاڑی خود یا ان کے والدین اپنی جنم بھونی کو چھوڑ کر انگلینڈ  آبسے تھے۔ ٹیم کے اس تنوع کے حسن کا اعتراف انگلینڈ کے کپتان ایون مارگن نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں بھی کیا۔اگر دیکھیں تو انگلینڈ کے ان مذکورہ کھلاڑیوں نے انگلینڈ کو فتح و کامرانی سے ہمکنار کرنے کے لئے  کلیدی کردار ادا کیا   بلکہ فائنل میچ  میں انگلینڈ کو فتح سے ہمکنار کرنے والے بین سٹوکس کی پیدائش  نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی ہے۔

(جاری ہے)


انگلینڈ کی متنوع ٹیم کی فتح میں کسی بھی ملک یا معاشرہ کی ترقی کا ایک راز مضمر ہے چنانچہ عمرانیات کا بنیادی اصول ہے کہ فرد مل کر معاشرہ بناتے ہیں اور معاشروں سے قومیں بنتی ہیں ۔کسی بھی قوم یا ملک کی ترقی میں  معاشرہ کے ہر فرد کا اپنا حصہ ڈالنا ضروری ہوتا ہے جیسا کہ اقبال کہتے ہیں  
؏افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ !!
جب کسی ملک یا قوم کی ترقی میں ملت کا ہر فرد اپنا حصہ ڈال رہا ہوتا ہے تو ایسے ملک ترقی کی دوڑ میں آگے نکل جاتے ہیں اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے رسہ کشی کا مقابلہ ہو  تا ہےجس میں حصہ لینے والے ہر آدمی کو زور لگانا پڑتا ہے اور جب ایسا کیا جاتا ہے تو فتح کی ضمانت یقینی ہو جاتی ہے ۔


وطن عزیز  میں ہنوز ہم شعور کی اس بلندی تک نہیں پہنچ سکے کہ جہاں  ہر قسم کے تعصبات سے ماورا ہو کر ملکی مفاد کو ترجیح دیں چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرہ کو کئی قسم کے تعصبات کا سامنا ہے۔ہمارے مذہبی تعصبات کے تو کیا کہنے کہ ہم اس معاملہ میں اتنے حساس ہو گئے ہیں کہ اس موضوع پر کوئی ،بات تک کرنے سے یا اپنا نقطہ نظر بیان کرنے سے کئی قسم کے تحفظات کا شکار ہو جاتاہے ۔

ہماری طبیعت اتنی حساس ہو چکی ہے کہ مخالف کے نقطہٴنظر کو برادشت کرنا ہمارے بس کی بات نہیں اگر کوئی کسی فیلڈ میں ماہر ہے تو ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہما را اس سے کیا لینا دینا ہاں ہمیں اس سے سروکار ضرور ہے کہ وہ ہمارے عقائد کے مطابق اپنے آپ کو دیندار ثابت کرے پھر مذہبی تعصبات کے بعد علاقائی یا لسانی تعصبات ہیں ۔ مشاہدہ سے ثابت ہے کہ ہمارے  کسی ایک صوبہ  میں  دوسرے صوبہ سے تعلق رکھنے والے کو  رہائش رکھنے کے حوالہ سے کئی قسم کے تحفظات ہوتے ہیں اور اسے اس معاشرہ میں جینے کے لئے مختلف قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،کسی دوسرے ملک سے آکر کسی نے ہمارے پاس کیا رہنا ہم تو  اپنے ملک کے کسی دوسرے  صوبہ سے آئے ہوئے کو برداشت کرنے کو تیا ر نہیں ہو تے!
 ماضی میں ہماری ملت کے اتحاد کی اعلیٰ مثال قیام پاکستان ہے چنانچہ قیام پاکستان میں ہمیں یہ بات نظر آتی ہے کہ جو لوگ پاکستان بنانے میں پیش پیش تھے ان کا تعلق معاشرہ کے ہر طبقہ ہائے فکر سے تھا اسی طرح قائداعظم ؒ  نے بھی ملکِ نَو کی ترقی کے لئے جو کابینہ تجویز کی تھی اس میں بھی تنوع کا رنگ نمایاں تھا۔


دنیا میں نظر دوڑا کر ملاحظہ کر لیں کہ ترقی کی دوڑ میں وہی ملک سب سے آگے ہیں جہاں آپس میں  ایک دوسرے کو زیادہ برداشت کیا جاتا ہے اور جہاں مذہبی،علاقائی،نسلی اور لسانی تعصبات سے ماورا ہو کر ہر فرد کو اپنے ملک کی ترقی کے لئے اپناکردار ادا کرنے کا پورا موقع دیا جاتا ہے  چنانچہ مغرب نے اپنی ایک لمبی خونریز  تاریخ کے بعد ایک دوسرے کو برداشت کرنے والا مزاج پیدا کیا ہے اور اسی لئے آج یہ ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے ہے،ملکی ترقی کے لئے اقلیت اور اکثریت کے فرق مٹانا بہت ضروری ہے اور اپنےمعاشرہ میں ایسا انسان دوست ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ معاشرہ کا ہر فرد بحیثیت پاکستانی  ملک کی ترقی میں  اپنا کردار ادا کرنے  کے قابل ہو سکے،یہی بات ہماری ترقی کی ضمانت ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :