اک ادھوری اڑان

جمعہ 4 دسمبر 2020

Mahnoor Rizwan

ماہ نور رضوان

بیٹیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں اور جس گھر میں یہ رحمت ہو اس کی ذمہ داری خود خالق کائنات نے لی ہے کتنا رتبہ حاصل ہے بیٹی کو کہ وہ اس ذات کی لاڈلی ہے جس کی بدولت ہم اس دنیا میں آئے ہیں. ویسے تو بیٹیوں کے لیے چڑیوں کا لقب استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ وہ معصوم ہوتی ہیں اور اپنی چوں چوں سے پورا گھر روشن رکھتی ہیں ماں کی نازو، باپ کی دلاری، اور بھائیو کی جان ہوتی ہیں.

آپ سب نے وہ گیت تو سنا ہو گا ساڈا چڑیاں دا چمبا او بابلا اسی اڑ جانا ہے لیکن ماں باپ کو ان چڑیوں کو اڑانے کی اتنی جلدی نا جانے کیوں ہوتی ہے میرا آج کا موضوع کم عمری کی شادی پر ہے جو ہمارے معاشرے میں بہت اہم. لوگ شادی کرنے کو فرض کہتے ہیں یقیناً یہ فرض ہی ہے لیکن مناسب وقت پر فرض کی ادائیگی ہی کامیاب ثابت ہوتی ہے وقت سے پہلے یہ فرض نہیں بلکہ قتل کے زمرے میں آتا ہے.

قتل ایک جیتے جاگتے بچپن کا، خوابوں کا، جزبات کا جن کی قبر کسی قبرستان میں نہیں بلکہ قلب میں ہی ہوتی ہے. کیسے لوگ کسی بچی سے شادی کے نام پر اس کا لڑکپن چھین لیتے ہیں اس چڑیا کے وہ پر کاٹ دیتے ہیں جنہوں نے ابھی تک اڑان سیکھی ہی نہیں ہوتی. میرا سوال ہے حکومت سے کے ویسے تو قتل کی سزا عمر قید یا پھانسی منتخب کی جاتی ہے پھر اس قتل کی سزا میں اتنی نرمی کیوں بلکہ کئ علاقوں میں تو نظرانداز کر دیا جاتا ہے.

پاکستان جن مسائل سے دوچار ہے اس میں سب سے اہم مسئلہ ہے لڑکیوں کی کم عمر میں شادی. پاکستان میں بڑی تعداد میں لڑکیوں کی شادی ١٨ سال سے کم عمر میں ہو جاتی ہے جو کہ قانونی جرم بھی لیکن قانون کو یہاں کیا سمجھا جاتا ہے. ہمارے لوگوں کا ماننا ہے کے قانون بنتے ہی توڑنے کے لیے اس لیے وہ ہماری چڑیوں کو اڑان نہیں بھرنے دیتے. اعدادوشمار کے مطابق ہر 4 میں سے 1 لڑکی کم عمری کی شادی کی بینٹھ چڑھتی ہے.

کم عمری کی شادی آج تک کامیاب نہیں رہی میں نے بہت سی معصوم لڑکیوں کی شادیاں اپنی عمر سے دو گنےعمر کے بندوں سے ہوتی دیکھی ہے میں نے دیکھا ہے ان معصوم آنکھوں میں سوال.اس کا قصور کیا تھا بس یہ کہ وہ ایک لڑکی ہے کیا انسانیت اس دنیا میں کہی جنم نہیں لیتی کیا اس کو جینے کا پڑھنے کا اور لڑکیوں کی طرح اپنے خواب پورے کرنے کا حق نہیں تھا. ہمارے معاشرے کے مطابق نو عمر لڑکی ١٨ سال سے پہلے ہی شادی کے قابل ہوتی ہے شادی میں دیر خاندان کی رسوائی کا باعث بنتی ہے اور غیر شادی شدہ لڑکی مالی بوجھ تصور کی جاتی ہے یہی کچھ طرز ہیں جن کی بنا پر ہم اپنی بیٹیاں قربان کرتے چلے جاتے ہیں.

حکومت پاکستان نے لڑکی کی شادی کی جو عمر منتخب کی ہے وہ ١٨ سال ہے لیکن میری نظر میں یہ عمر بھی کم ہے. شادی کی عمر کم سے کم ٢٠ سال ہونی چاہیے تاکہ ایک لڑکی تعلیم کی بنیاد پر مضبوط ہو اور پوری اڑان بھرنے کے قابل ہو وہ ہوا میں اپنے پنکھ پھلا کر اڑ سکے نہ کہ پھڑپھڑاتے ہوئے. یہاں بہت سے لوگ میری رائے سے متفق نہ ہوں گے کیونکہ اسلام میں حکم ہے جب لڑکی بالغ ہو جائے اس کی شادی کر دو لیکن ساتھ ہی ساتھ تعلیم کا حصول بھی فرض قرار دیا ہے، عورت پر ہاتھ اٹھانا گناہ قرار دیا ہے اور زیادتی کے خلاف آواز اٹھانے کی بھی اجازت دی ہے.

افسوس طلب بات یہ ہے ہم دین کی بھی اس بات پر عمل کرتے ہیں جو ہمارے مطابق ہو. لیکن کم عمری کی شادی جرم ہے اور اس میں شامل ہر بندہ قاتل ہے جس کی پکڑ ربا العزت کے سامنے بر حق ہے. اس سماجی برائی کو روکا جا سکتا ہے تعلیم کو فروغ دے کر، والدین کو یہ سمجھا کے کہ کم عمری کی شادی نقصان دہ اور جان لیوا ہو سکتی ہے، موثر قانون سازی سے آزادی کی عمر کو کم سے کم ١٨ یا ٢٠ سال ہو.

اس طرح معاشرہ بھی سدھار کی طرف راغب ہو گا اور لڑکیاں بھی ہر شعبہ زندگی میں اپنا مقام بنا پائیں گی. خدارا ان قوم کی بیٹیوں کو ایسی زندگی عزت کے نام پر نہ دیں کہ وہ زندگی کی اڑان بھر نہ پائیں. اس قوم کو اس ملک کو اس سرزمین کو ضرورت ہے اپنی بیٹیوں کی فاطمہ جناح کے روپ میں، محترمہ بے نظیر کے روپ میں، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے روپ میں اور ہر اس لڑکی کے روپ میں جو قوم کے لیے اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں. بیٹی مضبوط بناؤ بیٹی پڑھاؤ آسانیاں بناؤ. پڑھائی ان کی تقدیر بناؤ تاکہ مشکل وقت میں وہ خود کو سنبھال سکیں.
چڑیاں ہوتی ہیں بیٹیاں
مگر پنکھ نہیں ہوتے بیٹیوں کے
میکے بھی ہوتے ہیں سسرال بھی  مگر گھر نہیں ہوتے بیٹیوں کے�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :