مان کا ٹوٹنا

جمعہ 31 اکتوبر 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

ہمیں اپنے دوستوں سے بڑی توقعات ہوتی ہیں۔جب ہم بیمار پڑیں گے تو وہ ہماری بیمار پرسی کو دوڑیں گے۔ جب ہمیں پیسوں کی ضرورت پڑے گی تو وہ رقم مہیا کر دیں گے۔جب ہم پر کوئی مصیبت ٹوٹ پڑے گی تو وہ ہمیں مصیبت سے نکال لیں گے۔یہ مان ہم نے اپنے دوستوں کے متعلق اپنے دل میں قائم کئے ہوئے ہوتے ہیں اور ہم اُن کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے کمربستہ رہتے ہیں۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ ہم امتحان میں واقعی پھنس جاتے ہیں لیکن یہ دوست منہ موڑ لیتے ہیں۔ان کا رویہ پرایوں جیسا ہو جاتا ہے۔تب ہمیں جھٹکا لگتا ہے کہ یہ کیا ہو گیا۔میں نے تو اس سے بڑی اُمیدیں وابستہ کی ہوئی تھیں لیکن اِس نے تو میرا مان ہی توڑ دیا ۔میں نے فلاں وقت اُس کے لئے فلاں کام کیا۔ فلاں وقت اُس کی یہ مدد کی اور فلاں وقت وہ مدد کی لیکن اُس نے تو سب کچھ بھلا دیا۔

(جاری ہے)

بُرا وقت آیا تو منہ ہی پھیر لیا۔ایسے وقت میں ہم چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ہم اپنی زندگی کا نظریہ ہی بدلنے پر تُل جاتے ہیں کہ دوستی اور وفا سب جھوٹی باتیں ہیں، یہ دنیا مطلب کی دنیا ہے۔جب تک میرا ہاتھ اوپر رہا سب میرے اپنے بنے رہے لیکن جونہی یہ ہاتھ نیچے ہوگیا دوسروں نے آنکھیں ہی پھر لیں۔اس طرح آپ اپنا آپ سمیٹ لیتے ہیں۔ہم میں سے بعض تو سمٹتے سمٹتے تنہا ہو جاتے ہیں۔

اسی طرح بعض لوگوں کو جب دوسروں سے امیدیں وابستہ ہوتی ہیں تو ان کے لئے سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں لیکن جونہی انہیں اقتدار ملتا ہے ،دولت ملتی ہے یا طاقت ملتی ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ اب مجھے اپنے فلاں فلاں دوست کی ضرورت نہیں رہی تو وہ انہیں اپنی زندگی سے خارج کر دیتے ہیں۔زندگی کا یہ رویہ بزدلانہ رویہ ہے۔بے شک ہم سے کچھ لوگوں کے دوست جب یہ دیکھتے ہیں کہ مستقبل میں اب اس سے کسی فائدے کے ملنے کی اُمید نہیں تو وہ دور ہٹ جاتے ہیں لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ زندگی پر اعتبار ہی اُٹھ جائے۔

بہادر اور دلیر آدمی کسی حادثے کے بعد بھی اپنا دامن نہیں سمیٹتے۔ وہ دوستوں کے لئے ٹھنڈی چھاؤ بنے رہتے ہیں۔وہ بے وفائی کو نظر انداز کر کے پھر اپنے دامن کو پھیلا لیتے ہیں۔اللہ تعالٰی نے انسانوں کو بہت مختلف بنایا ہے۔ہمارے درمیان ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو صرف اپنے فائدے پر نظر رکھتے ہیں اور فائدہ حاصل ہو جانے کے بعد آنکھیں پھر لیتے ہیں لیکن ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جودوسروں کی مشکلات کے سامنے سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔

وہ دوست کا مصیبت کے وقت ہاتھ چھوڑنا گالی سمجھتے ہیں۔ایسے لوگ دور اندیش لوگ ہوتے ہیں اور کسی وقتی فائدے پر نظر نہیں رکھتے بلکہ دور کے زمانے میں ٹھنڈے جھونکوں کے انتظار میں تپتی دھوپ کو جھیلتے رہتے ہیں۔لوک گیتوں میں ایسی وفاؤں کا تزکرہ ملتا ہے۔لوک گیتوں میں دوسروں کے لئے تکالیف اٹھانے ، دوستوں پر برا وقت آجانے پر ثابت قدم رہنے والوں کے لئے بڑے خوبصورت جذبات کااظہار ملتا ہے۔

بعض علاقوں میں چوپالوں پر اس طرح کی تحریک پیدا کرنے والی گفتگو بھی وفادار لوگ پیدا کرتی ہے۔ جس طرح وفادار لوگوں کو بڑے دلکش الفاظ سے خراجِ تحسین پیش کی جاتی ہے اُسی طرح بے وفا لوگوں کے لئے بڑے گھٹیا الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔اس طرح ان علاقوں میں بڑے خوبصورت روایات جنم لیتی ہیں۔ماضی میں اس طرح کی محفلیں عام ہوا کرتی تھیں جس کی وجہ سے وفا بھی زندہ تھی ، اب یہ ذمہ داری میڈیا پر آ پڑی ہے۔لکھنے والوں پر آ پڑی ہے۔اب وفا کو قائم رکھنے کے لئے انہیں آگے آنا ہوگا۔ہماری مشرقی روایات اور اقدار قابلِ فخر ہیں انہیں مسمار نہیں ہونے دینا۔جس کے حصے میں جتنا بھی کام آئے اُس کو احسن طریقے سے پورا کرنا ہوگا ۔وفا کے دئیے جلا کے رکھنے کے لئے ہر سطح پرکام کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :