سانحہ کراچی ، اللہ سے رجوع کریں

جمعہ 15 مئی 2015

Maryam Tahir

مریم طاہر

یقین کریں سمت ہی غلط ہے، سوچنے کا اسلوب ہی بے ڈھنگا ہے ۔اقبال نے اگر کہا تھا کہ دل کی گہرائیوں اور یقین کی دولت سے بہروہ ورہو کر کیا گیا ایک سجدہ انسان کو ہزار سجدوں سے نجات دلانے کا سبب بنتا ہے تو یہ بے سبب کہی ہوئی بات نہ تھی ۔ہم نے آج تک ہزار و ں دروازوں پر جبیں کو جھکایا ہے مگر جہاں سرنگوں ہونے سے ہزار خداؤں سے نجات میسر آنا تھی اسے نظر انداز کرتے چلے گئے ہیں۔

پاکستان لہو لہو ہے ۔ملک کے طول عرض کربلہ سا منظر پیش کر رہے ہیں اور مقتدر حلقے مشرق کی جانب منہ کر کے سجدے کئے چلے جارہے ہیں ۔جس سجدے نے نجات دلانی تھی وہ کیا ہے اور نہ اس کی ادائیگی کا کوئی قصد دکھائی دیتا ہے ۔زمین و آسمان کا خالق صرف دو چیزیں عطا کرتا ہے اول رحمت اور دوسری زحمت، باقی سب کچھ اسی میں پوشیدہ ہے ۔

(جاری ہے)

جب وہ رحمت برساتا ہے تو زمینیں سونا اگلنا شروع کر دیتی ہیں۔

عوام کے دلوں میں حکمرانوں کی محبت پیدا کر دی جاتی ہے ۔امن و امان کے جھنڈے لہرانے لگتے ہیں،چور کتب بن جاتے ہیں ،مال و اسباب ہر کسی کی دسترس میں آجاتا ہے ،زکوٰة دینے والے تو موجود ہوتے ہیں مگر لینے والا کوئی نظر نہیں آتا،فتوحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے ۔قوم ہجوم نہیں کہلاتی بلکہ قوم کے فرد ایک دوسرے سے محبت کرنے والے یک جان اور خیر خواہ بن جاتے ہیں ۔

اور جب خالق کی جانب سے زحمت کا نزول ہوتا ہے تو کھیت و کھلیان بنجر اور پھلدار درخت بے ثمر ہو جاتے ہیں ۔آسمان سے برسنے والا پانی رحمت کی بجائے زحمت بن جاتا ہے ۔ریاست کے معصوم شہری خاک و خون میں نہلاتے اور غوطے کھاتے ہیں۔قوم کی گردنیں غیرملکی قرضوں میں جکڑ دی جاتی ہیں۔ دہشت گردی کا آسیب ریاست کے بچوں،عورتوں اوربوڑھوں کو لخت لخت زیر زمین منتقل کر دیتا ہے ۔

یہ خالق کائنات کا غضب ہے جو زحمت بنا کر مسلط کردیا جاتا ہے ۔ یہ اللہ کا غضب نہیں تو کیا ہے کہ پاکستان میں چھوٹے بڑے59دریا بہتے ہوں اور اس ملک میں 2420میگا واٹ سے لے 5800میگا واٹ تک بجلی کا شاٹ فال پیدا ہوجائے۔ریاست کے پاس تربیلہ ڈیم،منگلا ڈیم،واسک ڈیم ،وندر ڈیم اور کوہاٹ ڈیم جیسے پانی زخیرہ کرنے کے مراکز ہوں اور اس کے شہریوں کو بیس بیس گھنٹے طویل لوڈ شیڈنگ کا عذاب سہنا پڑے ۔

1968میں پاکستان کی قومی ائیر لائین” پی آئی اے“ دنیا کی دوسری بڑی ائر لائین قرار دی جائے اور آج پاکستان کے شہری حج اور عمرہ جیسا مقدس سفر کرنے کیلئے بھی ستر سے اسی ہزار کا ٹکٹ خریدنے پر مجبور ہوں۔1960کی دہائی میں گورنمنٹ کالج نے ایشیاء کی پہلی ہائی ٹیک فزکس لیب بنائی ہو اور آج پچاس سال بعد اس ملک کے تعلیمی ادارے تعلیم فروش مراکز کے طور پر شہرت رکھتے ہوں اورملکی طلباء کی قابل زکر کی تعداد میڈیکل اور انجینئر نگ کی تعلیم کیلئے ہمسایہ ملک چین اور روسی ریاستوں کا رخ کرنے پر مجبور ہو۔

1960میں پاکستان ایشیاء کا پہلا ملک ہو جس نے خلا میں سیٹلائٹ ”رہبر اول“بھیجا ہو اور آج پچاس سال بعد اس کے مسافر طیاروں کے پاس پرواز کیلئے تیل بھی موجود نہ ہو۔80کی دہائی میں پاکستان سیلکان بنانے والا ملک ہو اور آج اس سے نفع کمانے کی بجائے اسے پس پشت ڈال دیا جائے۔1970میں پاکستان بال پوائنٹ بنائے اور آج اس کے طلبا وطالبات برادر ملک چائنہ کے بال پوائنٹ استعمال کریں۔

پاکستان نیو کلیئر ٹیکنالوجی میں 20ارب ڈالر سرمایہ کاری کرے اور آج اس سے نفع کمانے کی کوئی تجویز زیر غور نہ ہو۔اس پاک دھرتی کے تھرکول ذخائر کے تیل کی قیمت سعودی عرب اور ایران کے تیل کی مجموعی قیمت سے زیادہ ہو اور اس کے شہری 86روپے فی لیٹر پٹرول خریدیں۔یہ اللہ کی ناراضگی نہیں تو کیا ہے ؟۔یہ قبلے کا فرق نہیں تو اورکیاہے؟ ۔ٹھیک کہا گیا تھا کہ جب انسان ایک خدا سے منہ موڑ لیتا ہے تو پھر ہزار” خداؤں“ کا محتاج بنا دیا جاتا ہے ۔

جب ایک اللہ کے سامنے دامن وا کرنے کی بجائے دیگر سہاروں کی تلاش میں خود کو کھپاتا ہے تو پھر وہ ناکام و مراد رہتا ہے ۔
اسے بد قسمتی کے سوا کیا نام دیں گے کہ پاکستان کے شہری عبادت کیلئے گھر سے نکلتے ہیں اور انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا جاتا ہے ۔ برائے مہربانی رہنے دیجئے، شیعہ سنی اور اسماعیلی و دیوبندی کی بحث ۔ ہلاک شدگان پاکستانی ہیں اور ہر پاکستانی کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔

مگر کیا کیجئے کہ حکومت دہشت گردی کے طوفان کا مقابلہ کرنے میں سرخرو نہیں ہو سکی ۔ شہر قائد کی روشنیاں بحال کرنے کیلئے ہر جتن کر لیا گیا مگر وائے قسمت ،کامیابی میسر نہ آسکی ۔آج بھی کراچی کی شاہراوں پر ایمبولینس کے سائرن بجتے ہیں اور ہسپتالوں کے مردہ خانے تنگی داماں کا منظر پیش کرتے ہیں ۔ خدایا کراچی کو بچا لیجئے یعنی پاکستان کو بچا لیجئے ۔

وقت آن پہنچا ہے کہ قومی سلامتی کے ادارے حتمی اور واضح پالیسی اختیار کریں اور قوم کو دہشت گردی سے نجات دلائیں ۔ مکرر عرض ہے سمت ہی غلط ہے ۔فکر کا اسلوب ہی پراگندہ ہے جب تک ایک سجدہ اصل روح کے ساتھ ادا نہ کیا جائے گا یہ غم اور وحشت یونہی مقدر رہے گی۔حکمرانوں سے لے کرعوام الناس تک توبہ کی ضرورت ہے ۔ناراض اللہ کو منا لینے کی حاجت ہے ۔اگر وہ راضی ہوگیا تو تمام رنج والم راحت میں بدل جائیں گے اور اگر ناراض رہا تو ظلمت کی یہ رات طویل سے طویل تر ہوتی جائے گی یہاں تک کہ اسرافیل سور پھونک دے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :