صفدر علی چوہدری کی یادیں

جمعہ 26 جنوری 2018

Mian Ashfaq Anjum

میاں اشفاق انجم

دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو سب کو پیارے ہوں، جو سب کے پیارے ہوں، ہر فرد یہ سمجھے میرا دوست ہے، میرا مربی ہے، میرا بھائی ہے، سب سے زیادہ پیار مجھ سے کرتا ہے، میرا دُکھ، درد بانٹنے والا ہے، حقیقت میں یہ میرا سرپرست ہے، ایسی ہی شخصیت کی آج یادیں تازہ کرنی ہیں راقم کا 1988ء میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہونے کے بعد منصورہ سے رابطہ ہوا تو 2015ء تک ایسی سرپرستی اور محبت ملی جو باپ کی حیثیت سے، بھائی کی حیثیت سے، مربی کی حیثیت سے، جہاں آپ فٹ کر سکتے ہیں، آپ کی روح کو تازگی بخشنے کے لئے کافی ہے۔

پہلے دن سے ان کے دنیا سے جانے تک کے سفر کے آخری چند سال جو انہوں نے رہائش منصور سے محافظ ٹاؤن میں اختیار کر لی، رابطہ کم ہوا مگر زندگی کے اتار چڑھاؤ میں ان کی شخصیت کا ایک ایک پہلو آج بھی نظروں کے سامنے ہے، اﷲ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عنایت فرمائے۔

(جاری ہے)

میری مراد صفدر علی چودھری ہیں جو اب حقیقی زندگی کے سفر پر روانہ ہو چکے ہیں۔

سید مودودی کی دعوت کی حقیقی پہچان جماعت اسلامی پاکستان کی شان صفدر علی چوہدری کی زندگی کے گوشوں پر نظر دوڑائیں تو درویشی، شرافت، بردباری، حیا، دعوت، تنظیم، تربیت سب کچھ نظر آتا ہے۔ صفدر علی چودھری 1941ء میں جالندھر میں چودھری دین محمد کے ہاں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کے والدین خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آ گئے اور اوکاڑہ میں مقیم ہوئے۔

بعد میں ان کے خاندان کے لوگوں کو لیہ میں آباد کاری کے لئے کچھ اراضی ملی تو وہ لیہ منتقل ہو گئے۔ انہوں نے انٹر اوکاڑہ سے پاس کیا۔ ایف اے میں ہی اسلامی جمعیت طلبہ سے متاثر ہوئے۔ بی اے ساہیوال سے کیا اور ایم اے پولیٹیکل سائنس کے لئے پنجاب یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ 1967ء میں پنجاب یونیورسٹی سے امتیاز کے ساتھ سیاسیات میں کامیابی حاصل کی۔

اُن کے اساتذہ چاہتے تھے کہ وہ پنجاب یونیورسٹی میں ہی تدریس کے شعبے سے منسلک ہوں تاہم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے حکم پر اُنہوں نے اپنی خدمات جماعت اسلامی کے مرکز کو پیش کر دیں۔ مرکز جماعت میں اُنہوں نے شعبہ نشرواشاعت میں اپنی ذمہ داری سنبھالی۔ اگرچہ اُن کا تقرر شعبہ نشر و اشاعت کے ناظم جناب نعیم صدیقی کے ساتھ نائب ناظم شعبہ نشر و اشاعت کے طور پر ہوا تھا، لیکن ان ہی دنوں نعیم صدیقی صاحب نے شعبے کی نظامت چھوڑ دی تو جناب صفدر علی چودھری ناظم شعبہ نشر و اشاعت یعنی سیکرٹری اطلاعات بنا دیئے گئے۔

ناظم نشر و اشاعت کی ذمہ داری سنبھالنے کے ساتھ ہی اُنہوں نے جماعت اسلامی کی رکنیت کا حلف بھی اٹھایا۔ اس سے پہلے وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن تھے۔ سید مودودی، میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد کے دور میں وہ اس شعبے کے سربراہ رہے۔ قاضی صاحب کے دور آخر میں انہیں شعبہ تعلقات عامہ کا سربراہ بنا دیا گیا تھا۔ وہ 2012ء تک بڑی سرگرمی سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے، یہاں تک ان کی صحت اتنی خراب ہو گئی کہ انہیں اپنے فرائض سے سبکدوش ہونا پڑا۔

جناب صفدر علی چودھری کو قدرت نے بہترین صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ اس کا اظہار اُنہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن اور رہنما کے طور پر ہی کر دیا تھا۔ پہلے پنجاب یونیورسٹی کے ناظم بنائے گئے پھر سید منور حسن صاحب ناظم اعلیٰ بنے تو یہ اُن کے ساتھ صوبہ مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کے ناظم رہے۔ ان کی اعلیٰ صلاحیتوں کی بناء پر انہیں تعلیم سے فارغ ہوتے ہی یونیورسٹی میں لیکچرر شپ کی پیشکش ہوئی، لیکن انہوں نے اپنی زندگی تحریک اسلامی کے لئے وقف کر دی۔

وہ صحیح معنوں میں جماعت اسلامی کے ہمہ وقتی کارکن تھے، انہیں قیادت کی طرف سے جو کام تفویض کیا جاتا، اس کی بجا آوری میں رات دن ایک کر دیتے تھے۔ کئی برس تک وہ جماعت اسلامی کے سیکرٹری اطلاعات کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ، ہفت روزہ ایشیا کے ایڈیٹر کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔
جناب صفدر علی چودھری گزشتہ چند برسوں سے علیل تھے، وہ ذیابیطس کے موذی مرض میں مبتلا تھے۔

13جنوری 2018ء کی صبح انہوں نے منصورہ ہسپتال میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ اسی شب نماز عشاء کے بعد شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور وہ محافظ ٹاؤن لاہور میں آسودہ خاک ہوئے۔ اللھم اغفرہ وا رحمہ و نور قبرہ۔ جناب صفدر علی چودھری ایک نیک نہاد اور پاک فطرت انسان تھے۔ محبت، مروت اور خوش مزاجی ان کی سیرت کے بنیادی عناصر تھے۔ اﷲ تعالیٰ ان کی کمزوریوں سے صرف نظر فرمائے، ان کی حسنات کو قبول کرے اور انہیں جنت میں داخل فرمائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :