پی آئی اے کی فروخت روکنے کا شکریہ

ہفتہ 10 مارچ 2018

Mian Ashfaq Anjum

میاں اشفاق انجم

با کمال لوگوں کی لاجواب سروس کی حامل قومی ایئر لائنز پی آئی اے کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہے، چاروں اطراف سے مایوسیوں کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں، موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد گزشتہ حکومت کے نج کاری پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے 31 اداروں کو فروخت کرنے کی منظوری دی تھی، جس میں پی آئی اے سمیت پاکستان سٹیل ملز اور دیگر 29 بڑے ادارے شامل تھے، میاں برادران کی حکومت کو ساڑھے چار سال کا عرصہ ہو چلا ہے، اکتوبر 2013ء سے فروری 2018ء تک بڑے اتار چڑھاؤ آئے، میاں نواز شریف نے پوری قوم کو پی آئی اے کی از سر نو تنظیم سازی سمیت بہت سی خوشخبریوں سے آگاہ کیا نئے جہازوں کی شمولیت نئی راہیں تلاش کرنے کے لئے بڑی بڑی شخصیات کو ٹارگٹ دیئے گئے، ہوا بازی کے تین مشیر بھی ساڑھے چار سال میں تبدیل ہوئے، اب سابق گورنر کے پی کے مہتاب خان عباسی دنیا بھر کی سیر کے مزے لے رہے ہیں مگر ساتھ ساتھ حکومت کے آخری تین ماہ میں دوبارہ پی آئی اے کو فروخت کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔

(جاری ہے)


افسوس اس بات کا ہے کہ میاں نواز شریف کے ساڑھے تین سالہ دور میں پی آئی اے نے اپنی غلطیوں پر قابو پاتے ہوئے نئے ازم سے نئی راہیں تلاش کرنا شروع کردی تھیں، نقصان میں جانے والے اسٹیشن بند کرکے دوبارہ منصوبہ بندی کی گئی اور بہت سے نقصان والے اسٹیشن اب منافع میں جانا شروع ہوگئے ہیں۔ ان حالات میں جب قومی ایئر لائنز کو معمولی سہارے کی ضرورت ہے، اس وقت موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی خود نجی ایئر لائنز ایئر بلیو کے مالک ہیں، مرحلہ وار ایئر بلیو کو آسمان کی بلندیوں پر لے جارہے ہیں۔

نئے اسٹیشنوں پر پروازیں شروع کررہے ہیں، وطن عزیز کی پہچان پوری دنیا میں پاکستان کی شان قومی ایئر لائنز پی آئی اے 1955ء میں پاکستان کی نمائندگی کے لئے بنائی گئی، 1960ء میں ایئر مارشل اصغر خان نے اس کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دی، کراچی سے لندن فلائٹ نے کم وقت میں پہنچنے کا نیا ریکارڈ بنایا، ایم ڈی پی آئی اے اصغر خان نے اپنی دیانت، امانت اور اعلیٰ صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے پی آئی اے کو دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شامل کروایا، تاریخ پہ نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ 1967ء میں جب کمپیوٹر کا استعمال شازو نادر ہی تھا، پی آئی اے ادارہ واحد قومی ادارہ تھا جس نے آئی بی ایم کمپیوٹر خریدا اور سارا نظام کمپیوٹرائزڈ کردیا، 40 سے زائد ممالک کی فضائی کمپنیوں کے طیارے یہاں آتے تھے اور تازہ دم ہوکر واپس جاتے تھے۔

گریٹ پیپل ٹو فلائی ود کی پہچان رکھنے والی ایئر لائنز نے خوب ترقی کی، دنیا کے ہر بڑے ملک سے پرواز کا آغاز کیا، ہر بڑے شہر میں اپنا ملکیتی دفتر بنایا، کمرشل بنیادوں پر پروازوں کا آغاز کیا تو کارگو میں اپنا سکہ جمایا۔
پھر ایسا وقت آیا یورپ سمیت امریکہ لندن متحدہ امارات سمیت دنیا کے بڑے بڑے ممالک میں کمرشل عمارتیں قومی ایئر لائنز کی ملکیت بن گئیں، آخر کیا ہوا کس کی نظر لگ گئی، اگر گھر میں کسی فرد کو بیماری لگ جائے تو کیا اس کو زندہ اٹھا کر گھر سے باہر پھینک دیا جاتا ہے۔

یا اس کو زندہ درگور کردیا جاتا ہے، بیماری کی زد میں آنے والے حصہ کو کاٹ کر الگ کردیا جاتا ہے، یقینا ایسا نہیں ہے، بیماری کی صورت میں ایک ڈاکٹر کی تشخیص کام نہ آئے تو دوسرے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، پھر بھی مرض کا ادراک نہ ہو تو میڈیکل بورڈ بیٹھتا ہے، طویل مشاورت کے لئے اجلاس ہوتے ہیں، پھر مرض کی تشخیص ہوتی ہے، اور علاج شروع کیا جاتا ہے، بد قسمتی سے ہمارے ہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے، پوری دنیا میں منفرد بہچان رکھنے والی ایئر لائنز کوٹکے ٹوکری کرنے کے لئے مافیا سرگرم ہے، زیادہ دور کی بات نہیں، جب پی آئی اے اہل پاکستان کے دلوں کی دھڑکن تھی، اس پر ہر پاکستانی سفر کرکے فخر محسوس کرتا تھا پھر پی آئی اے کو ایسی مہلک سیاسی بیماری لگ گئی جسے سیاسی مداخلت کہا جاتا ہے، ہر آنے والی حکومت نے اس بہتی ندی میں ہاتھ دھونا فرض سمجھا اور دل کھول کر اس میں بھرتیاں کی، سو فیصد پروفیشنل ایئر لائنز کو نان پروفیشنلز کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، نا اہل لوگوں کی سیاسی بنیادوں پر بھرتیوں نے پی آئی اے کے پروفیشنل ازم کا جنازہ نکال کر رکھ دیا، میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں، نوبت یہاں تک آگئی جہاز کم پڑنے لگے، ملازمین کی تعداد بڑھ گئی، جب 22 جہازوں کے لئے 22 ہزار ملازمین ہوں گے، 23 جہازوں کو اڑانے کے لئے 600 مرد اور خواتین کی فوج موجود ہوگی ایک جہاز کو چلانے کے لئے 400 ملازم ہوں گے، ملکی وقار کی پہچان پی آئی اے کا خسارہ بڑھتے بڑھتے 125 ارب تک جا پہنچے گا، دیکھتے دیکھتے 70 ارب کا بزنس دیگر ایئر لائنز چھین لیں گی، ہمارے صاحبِ اقتدار اجلاس کرتے کرتے سو جائیں گے، پھر یقینا پی آئی اے کو فروخت کرنے کی باتیں ہوں گی، میرا سوال یہ ہے کہ 1955ء سے کامیابی کی اڑان بھرنے والی پی آئی اے 2018ء میں سمندر میں غرق ہونے کے لئے تیار ہے، 20 سال سے بھی کم عرصے میں میدان میں آنے والی شاہین ایئر لائن اور ایئر بلیو کو کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں دن دگنی رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے۔

ان کے پاس نہ جانے کون سی گیدڑ سنگی ہے وہ روز بروز منافع میں جارہے ہیں، ان ایئر لائنز کے گزشتہ 10 برسوں کے دوران میں کسی ملک میں ملکیتی دفاتر نہیں تھے، آج ان کے دھڑا دھڑ دفاتر ہر ملک میں بن رہے ہیں، نئے نئے اسٹیشن سے پروازیں شروع ہورہی ہیں، اربوں روپے کے اثاثے رکھنے والی پی آئی اے جو پورے پاکستان کی پہچان ہے امت مسلمہ کی منفرد پہچان ہے پھر کیوں پٹڑی پر نہیں چڑھ سکتی، ایئر بلیو کے لئے نئے نئے منصوبے بنانے والے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پی آئی اے کی سرپرستی کیوں نہیں کررہے، اس کو علیحدہ علیحدہ حصوں میں تقسیم کرنے کی باتیں کیوں کررہے ہیں۔

پی آئی اے میں جعلی ڈگریوں والے اگر فارغ کردیئے جائیں پی آئی اے سے میرٹ سے ہٹ کر بھرتی کیے گئے سر پلس ملازمین اگر فارغ کردیئے جائیں سیاسی مداخلت اور بھرتیوں پر پابندی لگا دی جائے، مفت سفر کا خاتمہ کر دیا جائے، نئے جہاز پی آئی اے کے سکواڈ میں شامل کرلیے جائیں تو کیا پھر بھی پی آئی اے کو فروخت کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا جواب وزیراعظم پاکستان کو دینا چاہیے جو کامیابی کے ساتھ اپنی ایئر لائن چلا رہے ہیں، خدارا قومی ادارہ اور حساس اداروں کو فروخت کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں، پی آئی اے ہو یا پاکستان اسٹیل ملز سب ہمارا قومی سرمایہ ہیں، ملکی وقار میں حل ڈھونڈیئے جان مت چُھڑائیے۔

پارلیمنٹ اور وفاقی کابینہ کا عوامی دباؤ میں پی آئی اے کو فروخت کرنے کا فیصلہ موخر کرنا خوش آئند ہے، مگر لازم ہے ڈاؤن سائزنگ کرکے اور بلاوجہ کے اخراجات کو کنٹرول کیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :