طلبہ یونینز پر پابندی کے 34 سال

جمعہ 9 فروری 2018

Mian Ashfaq Anjum

میاں اشفاق انجم

آج طلبہ یونینز پر پابندی کو 34سال مکمل ہو گئے ہیں۔ طلبہ و طالبات 34سال سے ذہنی اور سیاسی تربیت سے محروم ہیں۔ آج کا طالب علم قائدانہ صلاحیتوں سے محروم ہے۔ ذہنی انتشار کا شکار ہے۔ طلبہ یونین نہ ہونے کی وجہ سے رواداری، حسین روایات سے تعلیمی ادارے محروم ہو چکے ہیں۔ طلبہ یونینز پر 34سال پہلے پابندی لگانے والے آج دنیا میں نہیں ہیں، مگر جمہوری نرسری سے محروم طلبہ و طالبات بھی انہیں اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرتے۔ طلبہ یونین کو امن عامہ کا مسئلہ قرار دینے والے آج جب تعلیمی اداروں میں بدامنی دیکھتے ہیں۔لسانیت، مذہبی فرقہ واریت تیزی سے پروان چڑھتی دیکھتے ہیں تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ امن عامہ کو جواز بنایا گیا تھا۔آج بھی بدامنی ہے۔ تعلیمی اداروں میں جھگڑے ہیں۔ صوبائی ،لسانیت، فرقہ واریت ہے برادری ازم ہے پھر کون سے عوامل تھے جن کی وجہ سے طلبہ کو جمہوری حقوق سے محروم کیا گیا۔

(جاری ہے)

ایسا محسوس ہوتا ہے۔ طلبہ یونین پر پابندی لگانے والوں نے سوچا ہی نہیں تھا، جائزہ ہی نہیں لیا تھاسروے ہی نہیں کروایا اور سنی سنائی باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے سیاست کی نرسری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھاپاکستانی طلبہ کو حب الوطنی کے جذبے سے سرشار کرنے ،نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کا خوگر بنانے کے مواقع سے محروم کردیا گیا۔ طلبہ یونینز تعلیمی اداروں کی پہچان ہوتی تھی طلبہ کی جان ہوا کرتی تھی طلبہ و طالبات کی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی پہچان ہوا کرتی تھیں۔ رواداری، برداشت، اخلاقی قدریں پروان چڑھاتی تھیں۔ طلبہ یونین کا کمال ہے کہ پاکستان میں نامور اور قد آور شخصیات پیدا ہوئیں جو اس وقت دنیا بھر میں نمایاں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ فارن آفس ہو۔ تحقیقی ادارے ہوں، صحافت ہو یا سیاست ہر میدان میں طلبہ یونین نے منفرد سپوت قوم کو دیئے ہیں۔سینکڑوں نام ایسے ہیں جن کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے۔ درجنوں نام اس وقت پولیس، بیورو کریسی کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ نامور ڈاکٹرز انجینئرز ہیں جو ملک قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ سب طلبہ یونینز کی پیداوار ہیں۔ تعلیمی اداروں میں عدم تشدد کی خواہش ہر محب وطن پاکستانی کی ہے۔ اس پر غور کون کرے؟۔پیپلزپارٹی کی حکومت نے پہلے دن ہی طلبہ یونین پر پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا۔5سال حکومت رہی۔ بے نظیر مرحومہ ہو گئیں۔یوسف رضا گیلانی بحالی کے اپنے اعلان پر عمل نہ کروا سکے۔آج تک طلبہ یونینز بحال نہ ہو سکیں۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے طلبہ یونین کے ثمرات پر خوب بات کی ہے۔ حق ادا کیا ہے سینیٹ سے طلبہ یونین کی بحالی کی متفقہ قرارداد منظور کرائی اور طلبہ یونین کی بحالی کے لئے قومی اسمبلی میں قرار داد لانیکی سفارش کی۔ ان حالات کے باوجود وہ کون سی قوتیں ہیں جو طلبہ کو غیر نصابی سرگرمیوں سے محروم رکھنا چاہتی ہیں۔کون سی قوتیں ہیں جو ملک میں طلبہ یونین نہ ہونے کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں تیزی سے پروان چڑھتی تشدد، بدامنی لسانیت، فرقہ واریت صوبائیت کی لہر کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی ہیں۔ حالانکہ امریکہ میں طلبہ یونین کے نام پر تنظیم کام کرتی ہے۔ آسٹریلیا کی ہر یونیورسٹی میں دو طلبہ تنظیمیں موجود ہیں۔ انتہائی سرگرم اور فعال کردار ادا کررہی ہیں۔ میڈیا سے متعلق ایشو اخبار، وکالت، سیاسی، معاشی ، معاشرتی معاملات میں کردار ادا کر رہی ہیں۔ آذربائیجان میں طلبہ یونین (ASO) کے نام سے کام کررہی ہیں۔ چائنا میں سٹوڈنٹس لیگ کام کررہی ہیں۔ فلپائن، سری لنکا، میانمار، افریقہ، یورپ، ڈنمارک، جرمنی، یونان، آئر لینڈ، فرانس یونان اور بہت سے ممالک میں طلبہ یونین موجود ہیں اور اپنے اپنے معاشرے کو سنوارنے میں موثر کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ تھی دنیا بھر کی مثال اگر ہم پاکستان یا تحریک پاکستان میں طلبہ کے کردار کا جائزہ لیں تو اس میں بھی آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد 12اگست 1936ء کو رکھی گئی۔ اس تنظیم نے نہرو کی قیادت میں آزادی کے لئے کام کیا۔ آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن 17جنوری 1936ء کو بنی محمد واسق صدر اور نعمان سیکرٹری بنے۔ اس تنظیم کا مقصد بھی مسلمانوں میں آگاہی اور سیاسی شعور بیدار کرنا تھا قیام پاکستان تک اور پاکستان قائم ہونے کے بعد طلبہ تنظیموں کا کردار قابل ستائش رہا ہے۔ اگر ہم موجودہ دور میں طلبہ تنظیموں کا کردار دیکھیں تو وہ بھی قابل قدر ہے۔ ایسی تنظیمیں جو اپنے مقاصد سے پیچھے ہٹیں۔ ان کا نام تک ختم ہو گیا جو طلبہ تنظیمیں تسلسل سے کام کر رہی ہیں وہ بگاڑ کی بجائے معاشرے کو سنوار رہی ہیں۔ ان میں اسلامی جمعیت طلبہ سرفہرست ہے۔ ملک گیر تنظیم ہونے اور فرقہ واریت سے پاک ہونے، لسانیت اور برادری ازم سے پاک ہونے کی وجہ سے آج بھی تعلیمی اداروں میں پابندیوں کے باوجود اپنے منشور کے مطابق طلبہ کی کردار سازی اور تعلیمی اداروں میں امن یکجہتی اور اسلامی شعار کے فروغ کے لئے سرگرم ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی سے سینیٹر رضا ربانی تک کے اقدام کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔1973ء کے آئین کو مقدم سمجھا جاتا ہے۔ اسی آئیں میں طلبہ یونین کو تعلیمی اداروں کے لئے ناگزیر قرار دیا گیا ہے۔34سال پابندیوں کے دور کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ 70سال میں باقی سال جن میں طلبہ تنظیمیں کام کرتی رہیں تعلیمی اداروں میں نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے اثرات ثمرات کا جائزہ بھی لیا جانا چاہیے۔ طلبہ تنظیموں کے خود احتسابی کے عمل کے ساتھ طلبہ کے جمہوری حقوق کی بحالی کے لئے اگر قواعد و ضوابط نئے بنانے کی ضرورت ہے تو بنانے چاہئیں، مگر طلبہ و طالبات کو جمہوری حقوق ملنے چاہئیں، تاکہ وہ معاشرے کو باصلاحیت مقرر، صالح قیادت دے سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :