مصنوعی معیار زندگی اور ہم

بدھ 4 اگست 2021

Mina Rafiq

منیٰ رفیق

اللہ تعالٰی نے دنیا قائم کی تواس میں موجود  ہر شے اپنی خوبصورتی اور انوکھے خدوخال اور رنگ سے اس کی عظمت اور حکمرانی بیان کرتی نظر آئی۔
آسمان ۔زمین سمند ر ۔دریا اور اس میں پائے جانے والی ہر مخلوق اس واحد خالق کی بہترین کارگری ہے۔
انسان بھی دنیا میں مختلف رنگ ۔نقش اور قد کاٹھ کے بنائے۔
 ہمیں اللّٰہ کا شکر گزار ہو نا چاہیے کہ اس نے ہم کو  صحیح و سالم پیدا کیا۔


شعور  کے ساتھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی ۔
 اب یہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنا معیار زندگی بہتر بنائے۔ صحت کا خیال رکھے متوازن غذا کا استعمال کرے  ورزش کرے اور اچھی نیند لے ۔
لیکن آج کے دور میں اپنا خیال اچھی صحت،خوبصورتی کے معنی بدل گئے آج کے دور میں یہ سب کچھ مصنوعی بن گیا ۔

(جاری ہے)


انسان مصنوعی خوبصورتی اور صحت  کےاس دور میں ہے جہاں کاسمیٹک سرجری عام ہے۔


ہمارا چہرہ باریک کیوں نہیں۔ہمارا ناک خوبصورت کیوں نہیں۔
اس وجہ سے لوگ اپنا ناک نقشہ بدلنے بڑے بڑے ڈاکٹروں  کے پاس جارہے ہیں۔انکو بھاری فیس دے کے ہونٹ بنوا رہے۔کوئی آنکھوں کی جھریاں ختم کرنا چاہتا اور کئ مسائل آج کی مصنوعی خوبصورتی کی ایجاد ہیں۔
ہمارا جسم فٹ نہیں کا سوچ کے ۔جم میں گھنٹے مشینوں پر ایکسر سائز کی جاتی مگر صبح کی ورزش اور چہل قدمی کا وقت نہیں۔


رات دیر تک جاگنا اور صبح دیر سے اٹھنا زندگی کا معمول بن گیا ہے۔
غذا میں فاسٹ فوڈ اور روغنی پکوان کا دور دورا ہے جس نے وقت سے پہلے نوجوانوں کو بھی بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے ۔
سادی اور خالص غذا کا استعمال نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے ۔
موبائل فون کی وجہ سے بچے بھی کھیل کود سے دور ہوگئے ہیں ۔
موبائل گیم اور کمپیوٹر کے زیادہ استعمال سے نہ صرف ان کی نظریں ابھی سے کمزور ہو گی ہیں بلکہ وہ ذہنی مسائل کا بھی شکار ہوتے نظر آرہے ہیں۔


والدین بھی بچوں کو موبائل دے کر اپنی جان بچاتے نظر آتے ہیں۔
پہلے لوگ آپس میں بیٹھ کے بات چیت کرتے تھے پورا گھر ایک دوسرے کی پریشانیوں سے آگاہ ہوتا تھا۔
اب لوگ اپنے گھر والوں کو کم اور سوشل سرکل پر زیادہ وقت سرف کرتے نظر آتے ہیں
اس لیے نتیجے میں ہمارے ہاں کئی مسائل جنم لیتے ہیں ۔
شادیوں میں پیسے اور دھوم دھام کی نمائیش اب ہر دوسرا شخص چاہتا ہے
جہاں دوسروں کو دیکھانے کے لیے اپنی جیب سے زیادہ خرچہ کرتا اور مقروض بھی ہوتا نظر آتا۔


اس وجہ سے لوگوں میں ایک مقابلہ ہونے لگتا۔اور طبقاطی نظام کے مسائل اور بڑھنے لگتے۔
ہم دیکھاوے اور ظاہری سجاوٹ جیسے جال میں پھنس چکے ہیں جس کی وجہ سے سادی زندگی۔خالص خوراک۔اور  اچھی صحت کھوتے جارہے ہیں ۔
گویا ہم مصوعنی چیزوں میں اتنا گھر گئے ہیں کہ اب ہمارا معیار زندگی بھی مصنوعی ہوتا جارہا ہے ۔
ہمیں اپنی سوچ کو اس مصنوعی چکاچوند سے نکلنا ہوگا تاکہ ہم اصل میں زندگی جی سکیں نہ کہ گزاریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :