ننھی زینب۔۔ میں کس قصور میں ماری گئی؟

جمعہ 12 جنوری 2018

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

پاکستانی معاشرے سے ننھی زینب کا سوال ہے، میں کس قصور میں ماردی گئی؟چھ دن پہلے اغوا کی گئی ننھی زیب مظلومہ کو کئی دفعہ زیادتی کے بعد قتل کر کے کچرا کنڈی میں ڈال دیا گیا۔پاکستانی معاشرہ سفاک درندوں کی اس حرکت کبھی بھی فراموش نہیں کرے گا۔ ایک سال کے اندرننھی بچیوں کو اغوا کرنے بعد زیادتی کا نانشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے کا یہ گیارہ واقعہ ہے۔

پنجاب حکومت اور پولیس کے لیے شرم کا مقام ہے۔ پولیس کے مطابق پچھلے اور موجودہ کیس میں میڈکل رپورٹ بھی ایک جیسی ہیں۔ پنجاب حکومت کا کہنا ہے قصور واقعات تواتر سے پیش آ رہے ہیں یہ سیریل کرائم ہیں ۔ کیس نتیجہ خیز بنانے کے لیے تمام توانائیاں صرف کریں گے۔قاتل کا خاکہ بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ تین مشکوک لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن سے تفتیش جاری ہے۔

(جاری ہے)

پنجاب حکومت کی بات کوسامنے رکھتے ہوئے اس سے شک گزرتا ہے کہ اس واقع میں پاکستان ازلی دشمن، بھارت ملوث ہے۔ وہ ہمارے ملک اپنے مقامی ایجنٹوں کو استعمال کر کے ہر طرح کی حرکت کر سکتا ہے جس میں عوام میں نفرت پھیلانے اور عوام اپنے آپ کو بے دست پا اور مظلوم سمجھنا شروع کریں۔اس سے قبل لڑکوں کے ساتھ زیادتی کے کیس بھی سامنے آئے ۔ کافی عرصہ پہلے بھی لاہور میں اقبال نامی سفاک کا بھی وقعہ سامنے آیا تھا۔

جس نے ایک سو لڑکوں کے ساتھ زیادتی کر کے ان کی لاشیں تیزاب میں ڈال کرگم نام کر دیں تھیں۔ایک طرف تو عوام کی نظریں پنجاب حکومت کی طرف اُٹھی ہیں کہ اگر ایسے واقعات میں مثالی اور عبرت ناک سزائیں دیں جاتی تو مجرم ایسی سفاک حرکتیں کرنے سے باز آتے اورایسے واقعات میں کمی ہوتی۔ دوسری طرف ان کو اپنے دشمن بھی نظر بھی آجاتے۔ لوگ نہیں سمجھتے کہ کوئی بھی جمہوری حکومت کسی سیاسی قسم کے احتجاجیوں پر خود پولیس کو حکم دیتی کہ چودہ کارکنوں کو ڈاریکٹ گولی چلا کو ختم کردو اور سیکڑوں کو زخمی کر دو۔

چیف جسٹس پاکستان نے از خود نوٹس لیا اور ۲۴ گھنٹوں میں رپورٹ طلب کر لی۔ اس کے ساتھ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس صاحب نے بھی نوٹس لیا۔ ملک بھر کی وکلاء کونسلوں جمعرات کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کر دیا۔ سپہ سارلر نے بھی فوج کو حکم جاری کیا کہ ملزمان کو گرفتار کرنے کے لیے سول حکام سے تعاون کیا جائے۔ حسب معمول وزیر اعلیٰ شہباز شریف صاحب نے بھی ننھی مظلومہ کے گھرجا کر والدین کو تسلی دی کہ مجرموں کو گرفتار کے قررارواقعی سزا دی جائے۔

نا اہل وزیر اعظم نواز شریف صاحب نے بھی کہا کہ بیٹیوں کے بے حرمتی کرنے والے درندوں کو فوری سز دی جائے۔ اے کاش کی ننھی مظلومہ کے والد کے بیان ،کہ جاتی امراء کی سیکورٹی پر پولیس لگی ہے عوام تو کیڑے مکوڑے ہیں۔ اس پر بھی نواز شریف صاحب دھیان دیں اور اپنے ذاتی گھر پر پرائیویٹ گارڈ لگائیں۔بلاول زردادی نے کہا کہ معصوم بچی کا اغوا پھر قتل شریفوں کی بادشادہی کے منہ پر طمانچہ ہے۔

پیپلز پارٹی نے اس واقعہ پر شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ کے استعفوں کا بھی مطالبہ کیا۔جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق،صاحبزادہ طارق اللہ ،صاحب زاداہ محمد یعقوب اور عائشہ سید نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں زینب واقعے کے خلاف تحاریک التوا جمع کر دی۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا ہے کہ قصور واقعہ ہماری معاشرتی پستی اور اخلاقی گراوٹ کا ظاہر کر تا ہے۔

معاشرے کے تمام طبقوں کو مل کر قوانین پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے۔عمران خان نے کہا کہ زینب واقعہ نے یہ بات ظاہر کر دی کہ بچے معاشرے میں کتنے غیر محفوظ ہیں ۔وہ قصور بھی جائیں گے۔ مریم اورنگ زیب صاحبہ نے کہا کہ سانحہ قصور متاثرہ خاندان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ظالم کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔اعتزاز احسن نے کہا قصور کاواقعہ پنجاب حکومت کی بدتر حکمرانی کی مثال ہے۔

پاکستان عوامی تحریک کے طاہر القادری صاحب نے کہا کہ معصوم زینب کی قاتل شہباز شریف حکومت ہے۔پولیس نے مظاہرین پر گولی چلائی۔شریف برادران لوگوں کو قتل کریں،خزانہ لوٹیں،سپریم کورٹ کو دھمکیاں دیں، کوئی انہیں ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ مریم نواز صاحبہ نے کہا کہ قصور سانحہ پر ملزمان کو سخت سزادے کر مثال قائم کرنی چاہیے۔ مگر بی بی صاحبہ پنجاب میں اور مرکز میں آپ کی حکومت ہے آپ کو سزا دینے سے کس نے روکا ہے؟ننھی زیب کر دفنا دیا گیا مگر قصور شہر کے عوام می غم میں نڈہال ہیں۔

مظاہرین نے پویس کی گاڑی کو آگ لگا دی اور دفتر میں گھسنے کی کوشش کی۔ پولیس نے مشتعل مظاہرین پر گولی چلا دی جس سے دو شہری شہید ہو گئے۔ پولیس کو مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لیے دوسرے ذرائع استعمال کرنے چاییں نہ کہ عوام پر گولیں چلا دیں۔دوسرا نہ جانے پنجاب پولیس میں کو ملک دشمن کھس بیٹھے ہیں جو عوام کو کنٹرول کرنے کے دوسرے طریقے اختیار کرنے کے بجائے ان پر ڈاریکٹ گولی چلا دیتے ہیں۔

لاہور میں منہاج القرآن کے کارکنوں پر ڈاریکٹ گولیاں چلا کر چودہ شہری شہید کر دیے ۔ سیکڑوں کو زخمی کر دیا۔جس سے ملک میں افراتفری نے جنم لیا۔ کورٹ انکواری روکی رکھی۔ منہاج القرآن کے لیڈروں کے مطابق جو پولیس والے اس واقعہ میں شریک تھے ان کو نوازا گیا۔ روپوٹ سامنے آجانے کے بعد عدالت میں مقدمہ قائم کر کے جن کی نشان دہی ہوئی ہے ان کو سزا دی جاتی تو لوگوں کو انصاف مل جاتا تو ملک میں افراتفری ختم ہو تی۔

پنجاب حکومت کو چاہیے تھا کہ ان واقعات میں قادیانیوں کے ممکنہ ملوث ہونے کے متعلق بھی تحقیق کی جاتی تو بات صاف ہو جاتی۔ اس سے قبل پنجاب کے شہر گوجرہ میں اقلیتوں کے واقعہ پر عدالت نے قادیانیوں کے ملوث ہونے کی رپورٹ دی تھی۔ مگر اس پر مجرموں کے خلاف کاروائی نہیں کی گئی۔ دوسری طرف محب وطن شہریوں کو بھی اپنا جائز احتجاج قانون کے دارے میں رہ کر کرنا چاہیے ورنہ وہ بھی نادانستی طور پر ملک دشمنوں کے ایجنڈے میں شامل ہو جاتے ہیں۔

لہٰذا اس میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ننھی زیب کے والد صاحب نے اپنی بیٹی کے سفاک واقعہ پر اپنے جذبات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں سارے ادارے مفلوج ہیں۔ صرف فوج اور عدلیہ ہی عوام کی نگہبان ہے۔ ساری پولیس جاتی امراء میں حکمرانوں کے حفاظت کے لیے تعینات ہے۔ عوام تو کیڑے مکوڑے ہیں۔ والدین عمرے پر گئے ہوئے تھے۔ اس واقعہ کی ان کوسعودی عرب میں اطلاع ملی ۔

وہ وہاں روتے رہے ان کی داستان سن کر دوسرے لوگ بھی ان کے غم میں شریک ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری قسمت میں یہ دُکھ لکھا تھا۔ جہاں تک پنجاب پولیس کا تعلق ہے تو وہ چھ دن تک معصوم بچی کو تلاش نہ کرسکی۔ بلا آ خر درندوں نے اس کے ساتھ زیادتی کر کے اسے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ یہ فعل ملک دشمن قوتوں کی کسی گہری سازش کا پیش خیمہ لگتا ہے ۔ ننھی زیب کے سفاک واقعہ پر پاکستان کا سارا میڈیا متحرک ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی عوام اس ظلم کے خلاسراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔اللہ مظلوموں کی مدد کرے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :